دل سے وصالِ یار کا ارمان بھی گیا
دیکھا جو گھر اداس تو مہمان بھی گیا
کر لی ہے اس نے پھر غمِ جاناں سے دوستی
لو اپنے ہاتھ سے، دلِ نادان بھی گیا
مشکل تھا اپنی راہ پہ لانا اسے مگر
تھا بات میں خلوص، تو وہ مان بھی گیا
دِکھلائے کیا بہار نے جوشِ جنوں کے رنگ
دامن بچا رہے تھے، گریبان بھی گیا
اس کی وفا نہ حاصل ہوئی مجھے فیض
میں اس کے در پہ لے کے دل و جان بھی گیا
Bookmarks