ڈیرہ غازی خان بم دھماکے کے ملزموں کی گرفتاری
طارق برمانی
ڈیرہ غازیخان پولیس نے 15 دسمبر کو کھوسہ مارکیٹ میں ہونے والے خود کش دھماکے کے ملزمان کا سراغ لگانے کا دعویٰ کیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس واردات میں 9 افراد ملوث ہیں۔ چار ملزمان صادق گبول، بشیر حجبانی، وزیر حجبانی اور طارق گبول کی گرفتاری عمل میں لائی جا چکی ہے۔مقامی ڈ سٹرکٹ پولیس افسر ڈاکٹر رضوان نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان ملزموں کی نشاندہی کچھ ماہ قبل گرفتار ہونے والے ملزم عنایت نے کی تھی۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے اس گھناﺅنی واردات میں مبینہ طور پر ملوث دو ملزموں صادق گبول اور وزیر حجبانی کو پیش کیا گیا، جن کے چہرے کپڑے سے چھپائے گئے تھے۔ پولیس کے مطابق دھماکے کے باقی ملزمان ابو عبیدہ عرف حسان سکنہ میانوالی، اسد اللہ سکنہ میانوالی اور ڈرائیور گل نواز آفریدی فرار ہیں جب کہ خود کش بمبار عبداللہ آفریدی موقع پر ہلاک ہو گیا۔
خیال رہے کہ پولیس نے ملزم عنایت کو وزیرستان سے حنیف گبول کی ٹیلی فون کال وصول کرنے کے بعد پکڑا تھا۔ ملزم عنایت نے وزیرستان سے دہشت گردی کی تربیت حاصل کی ہے اور اس کے رابطے وزیرستان میں حنیف گبول سے تھے جو عنایت اور دوسرے نوجوانوں کو اس گھناﺅنے مقصد کی خاطر وزیرستان لے جاتا رہا ہے۔ ملزم حنیف گبول ابھی تک نہیں پکڑا جا سکا۔
ڈیرہ غازی خان پولیس کے مطابق میران شاہ شمالی وزیرستان میں سرائیکی بولنے والے نوجوانوں کی تربیت کا علیحدہ مرکز ہے۔ دہشت گردوں کی اس تربیت گاہ میں 15سے زیادہ سرائیکی نوجوان موجود ہیں جسے میانوالی کے دو اشتہاری ملزمان اسد اللہ اور حسان چلا رہے ہیں۔ پولیس کے مطابق ڈیرہ غازیخان میں کھوسہ ہاﺅس پر دھماکہ اسی گروپ کی کارستانی ہے۔
پولیس نے ان ملزمان میں صادق گبول کو دہشت گردی کے واقعہ کے تکنیکی ماہر کے طور پر پیش کیا۔ واضح رہے کہ ڈیرہ غازی خان پولیس نے دہشت گرد جہادی تنظیموں کے ساتھ تعلق کے شبہ میں شہر اور نواحی علاقوں سے درجنوں افراد کو گرفتار کیا تھا۔ ملزم صادق گبول بھی ان میں سے ایک تھا تاہم پولیس نے بعد ازاں اسے مقامی افراد کی ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ملزم صادق گبول اتنا ہی خطرناک تربیت یافتہ دہشت گرد ہے تو اس کی رہائی کیسے عمل میں آئی؟ کیا پولیس کے پاس ایسا اختیار ہے کہ وہ دہشت گردی میں تربیت یافتہ افراد کو سفارش پر رہا کر دے؟
ضلعی پولیس نے اپنی تفتیش میں اس بات کی تردید کر دی کہ دہشت گرد کھوسہ ہاﺅس کو تباہ کرنا چاہتے تھے بلکہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ دہشت گرد ساتھ والی گلی میں موجود میوند رائفلز کی لائن کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔ پولیس کے مطابق درہ آدم خیل سے تعلق رکھنے والے مبینہ خود کش بمبار عبداللہ نے غلطی سے بارود سے بھری گاڑی گلی سے پہلے کھوسہ ہاﺅس کے داخلی دروازے کی طرف موڑ دی اور دھماکہ ہوگیا۔ ڈی پی او ڈاکٹر رضوان نے دعویٰ کیا اس واردات میں 480 کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال ہوا اور یہ مواد صوبہ سرحد کے شورش زدہ علاقے سے بذریعہ ترلن چیک پوسٹ ضلع میں داخل ہوا۔اس بارود کوایک ڈالے میں ڈرائیور گل نواز آفریدی لایا۔
اس کہانی میں بارود کی آمد ڈیرہ غازی خان میں 11 دسمبر کو ہوئی۔ ڈرائیور نے 480 کلو گرام بارود سے بھری گاڑی کو ڈیرہ غازی خان شہر اور اس کے حساس اداروں کی عمارتوں جو ڈیرہ، کوئٹہ روڈ پر موجود ہیں سے گزار کر ترٹی روھڑی نزد سخی سرور مبینہ گرفتار دہشت گردوں کے سپرد کیا۔ گاڑی کے ہمراہ ملزم حنیف گبول (دہشت گردی کا استاد) تھا جو پولیس کو پہلے ہی مطلوب ہے۔ گاڑی میں بارود دو ڈرموں اور سات پلاسٹک کے کینوں میں تھا جسے مبینہ دہشت گردوں نے اپنے فارم میں دفن کر دیا۔ اس وقوعہ سے پہلے صادق گبول، جو دہشت گردی کی ٹیکنالوجی میں ماہر ظاہر کیا جا رہا ہے، نے بارود کو سرخ رنگ کے ڈالے میں نصب کیا۔ یاد رہے گیارہ دسمبر کو انتہائی مطلوب دہشت گرد حنیف گبول بارود کے ہمراہ ڈیرہ غازی خان آیا اور بقول پولیس جو 15 دسمبر کو واپس وزیرستان چلا گیا۔ اسی شام مبینہ طور پر حنیف اور صادق گبول کا رابطہ ہوا جس میں ہدف کی ناکامی پر بات ہوئی۔
پولیس دعویٰ کرتی ہے 12 جنوری کو حنیف گبول نے بذریعہ ٹیلی فون صادق گبول کو ڈی پی او ڈیرہ غازی خان کو بم سے اڑانے کی ہدایت کی، دونوں ملزموں کے درمیان جو خفیہ زبان استعمال کی گئی اس کا مفہوم یہ تھا ”تم اگلے ٹارگٹ ڈی پی او کی تیاری مکمل کرو۔ صادق نے جواباً کہا کہ خود کش جیکٹ بمعہ حملہ آوربھیج دو“۔ بقول پولیس ملزم صادق اب ڈی پی او پر حملہ کرنے کی تیاری میں تھا۔ دوسری طرف پولیس کے اس دعوے کو عوام اور خفیہ تحقیقی اداروں نے شک کا اظہار کیا ہے ۔ ڈیرہ غازی خان کے باسی دھماکے کو ایک اور نظر سے دیکھ رہے ہیں ۔ 15دسمبر کے دھماکے میں کھوسہ ہاﺅس میں مقیم صرف دو مہمان زخمی ہوئے تھے۔ دھماکے کے فوراً بعد راقم کی ملاقات خفیہ پولیس کے ایک اہل کار سے ہوئی جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی اور تبصرہ کیا کہ یہ دھماکہ نصب شدہ بم ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے 12 فٹ گہرا گڑھا رہائش گاہ کی دہلیز پر پڑ گیا تھا۔ جائے وقوعہ کے جائزے کے بعد اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ دھماکہ رہائش گاہ کی اندرونی جانب سے ہوا ہے نہ کہ باہر کی جانب سے کیونکہ رہائش گاہ کا گیٹ اڑ کر باہر کی طرف گیا ہے۔
اس دھماکے کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اس دھماکے کی ذمہ داری کسی نے براہ راست قبول نہیں کی جبکہ پولیس نے گرفتار شدہ ملزمان کے بارے میں دعویٰ کیا کہ یہ لوگ دہشت گردی کی اس واردات میں شریک ہیں۔ دوسراپہلو یہ ہے کہ گذشتہ برس پانچ فروری کو عزاداری کے جلوس میںخود کش دھماکہ عبداللہ نامی نوجوان نے کیا تھا اور کھوسہ ہاﺅس میں کارروائی کرنے والے خود کش بمبار کا نام بھی عبداللہ ظاہر کیا گیا ہے۔ تمام پکڑے جانے والے مبینہ دہشت گردوں کا تعلق چوٹی زیریں سے ہے۔ وہ چوٹی سے مدرسہ محمودیہ اور عمر بن خطاب کے فارغ التحصیل طالب علم ہیں لیکن پولیس نے تاحال یہ مدرسے بند نہیں کیے۔ ایک اور سوال ابھی تک تشنہ جواب ہے کہ ملتان آئی ایس آئی کے دفتر پر دہشت گردی کی کارروائی کی اطلاع دھماکے کے فوراً بعد ڈیرہ پولیس کو کیسے مل گئی تھی اور یہ کہا جارہا تھا کہ بہاولپور یا ڈیرہ غازی خان میں بھی کارروائی کا امکان ہے؟ ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی صورت میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے مبینہ خود کش بمبار کے جسم کے اعضا ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نہیں بھیجے اور نہ ہی ایسے کوئی شواہد ملے ہیں جبکہ ڈی پی او ڈیرہ غازی خان اس کے برعکس دعویٰ کرتے ہیں۔
بہرحال یہ دھماکہ نصب شدہ بم کے ذریعے کیا گیا یا خود کش بمبار کے ذریعے حقائق جو بھی ہوں اس کا نشانہ مسلم لیگ (نواز) پنجاب کے صدر اور سینئرمشیر وزیر اعلیٰ پنجاب ذوالفقار علی خان کھوسہ کا گھر یا میوند رائفلز کی لائن ہو نقصان ڈیر ہ غازی خان کے عام شہریوں ہی کا ہوا ہے
۔
Bookmarks