اِسی امید پہ اب زندگی گزاروں گا
کبھی ملیں گے ترے پیار کے خزانے مجھے
مرے دُکھے ہوئے دل میں کِھلے گا صبر کا پُھول
قرار آئے گا آخر کسی بہانے مجھے
مجھے یقیں ہے کہ میرے بھی دن پھریں گے کبھی
کبھی تو آئے گا تُو بھی گلے لگانے مجھے
تُو بولتا ہے، تُو ہنستا ہے، کھیلتا ہے تُو
کوئی سنائے گا آ کر ترے فسانے مجھے
بس اک خوف ہے مجھ کو کہ برگِ خشک ہوں میں
گرا دیا جو کہیں شاخ سے ہوا نے مجھے
حیات و مرگ یہاں کس کے اختیار میں ہے
اگر دکھائی نہ صورت تری خدا نے مجھے
جو موت راہ میں دیوار بن گئی پیارے
جو تجھ سے ملنے کی مہلت نہ دی قضا نے مجھے
Bookmarks