۔
::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلِہ وسلم کی سیرت مُبارک ( مُختصراً ) :::::
::::: (١)پیدائش سے وفات تک کے مراحل :::::
::: نام و نسب ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شجرہ نسب یوں ہے کہ محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب ، بن مُرَّہ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فِھر (اِس فِھر کا لقب قُریش تھا اور قُریشی قبیلہ اِسی سے منسوب ہے ، اس کے آگے سلسلہ نسب یوں کہ فِھر ) بن مالک بن النضر بن کنانہ بن خُزیمہ بن مدرکہ بن اِلیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان ، جو کہ یقیناً اِسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں(صحیح سیرۃ النبویہ ) ،
::: والدہ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا شجرہ نسب ::: آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرۃ بن قصی بن کلاب ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی والدہ کا شجرہ نسب اُن کے والد عبداللہ کے ساتھ قصی بن کلاب پر جا ملتا ہے ،
::: تاریخ پیدائش ::: مؤرخین کی اکثریت کا کہنا ہے ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش مُبارک عام الفیل یعنی جِس سال ابرہہ ہاتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ پر حملہ آور ہوا تھا اُس سال میں ہوئی ، اور تاریخ پیدائش آٹھ ربیع الاول ہے (مؤطا مالک) اور پیدائش کا دِن سوموار ہے (صحیح مُسلم)۔( مزید تفصیل کے لیے کتاب ،عید میلاد النبی اور ہم ، کا مطالعہ کیجیئے)۔
::: بچپن و پرورش ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے والد عبداللہ اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو چکے تھے ، عرب رواج کے مُطابق دودھ پلائی کے لیے بنی سعد بھیجا گیا اور حلیمہ سعدیہ نے اُنہیں دُودھ پِلایا ، وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے چار سال بسر فرمائے ، اور وہیں رہنے کے دوران اُن کے سینہ مُبارک کے کھولے اور دھوئے جانے کا واقعہ پیش آیا ، اِس واقعہ کے بعد حلیمہ سعدیہ اُن کو واپس مکہ لے آئیں ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم چھ سال کے ہوئے تو اُن کی والدہ اُن کو لے کر اُن کے ننیھال مدینہ روانہ ہوئیں اور راستہ میں الابواء کے مُقام پر وفات پا گئیں ، پھر اُن کی خادمہ اُم ایمن نے اُن کی نگہداشت و پرورش کی اور اُن کے دادا عبدالمطلب نے کفالت کی، دو سال گذرنے کے بعد عبدالمطلب بھی فوت ہو گئے، اِس کے بعد عام تاریخی روایات کے مطابق اُن صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب نے اُن کی کفالت و پرورش کی اور اپنی زندگی کے آخر تک اُن کے مدد گار رہے ،
::: پہلا نکاح ::: پچیس سال کی عُمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا نکاح اُم المومنین خدیجہ بنت الخویلد رضی اللہ عنہا سے ہوا ، جِن میں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چار بیٹیاں اوردو بیٹے عطاء فرمائے ، خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پچیس سال بسر فرمائے ۔
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد ::: رقیہ ، زینب ، اُم کلثوم ، فاطمہ ، القاسم ، عبداللہ ، اِبراہیم ، رضی اللہ عنہم اجمعین ، آخری بیٹے اِبراہیم رضی اللہ عنہ کی والدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا تھیں ۔
::: وحی کا آغاز ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کواللہ کی طرف سے تنہائی کی طرف مائل کیا گیا تو وہ غارِ حراء میں جانے لگے اور چالیس سال کی عُمر میں اُن پر اللہ نے وحی نازل فرمائی ( اقرَا بِاسمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ ) ۔
::: دعوتِ اِسلام کا آغاز ::: اللہ کا حُکم ملنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ کی توحید کی دعوت کا آغاز فرمایا تو سب سے پہلے اللہ کے دِین کو ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہُ نے قُبُول کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دعوتِ توحید اور خدمتِ اِسلام میں مدد گار ہوئے اور اُن کے ذریعے عُثمان ، طلحہ ، اور سعد رضی اللہ عنہم اجمعینُ پہلے اِسلام لانے والوں میں سے ہوئے ، خواتین میں سب سے پہلے اُم المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنھا نے اِسلام قُبُول کیا ، اور بچوں میں سے سب سے پہلے علی رضی اللہ عنہُ نے ، اُن کی عُمر اُس وقت آٹھ سال تھی ۔
::: چند ہی دِنوں میں ہر طرف سے اُنکی مُخالفت شروع ہو گئی اور سختیاں کی جانے لگِیں، یہاں تک سُمیہ اور اُنکے خاوندیاسر رضی اللہ عنہما کو اذیتیں دے دے کر شہید کر دیا گیا ، یہ دونوں بالترتیب اِسلام کے پہلے شہید ہیں ، جب مُسلمانوں پر ظُلم و ستم بہت بڑھ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اُنہیں حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت فرمائی تو اسی ٨٠ مَرد اور ایک خاتون نے ہجرت کی ،
::: نبوت کے دسویں سال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے چچا ابو طالب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بڑے مددگار تھے ، اِسلام قُبُول کیئے بغیر فوت ہو گئے ، اور تھوڑے ہی عرصہ بعد اُن کی دوسری بڑی مددگار و غم خوار اُم المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنھا فوت ہو گئیں ،
::: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم طائف تشریف لے گئے وہاں بھی دِین حق کی دعوت دینے کی پاداش میں ظُلم و جور کا سامنا کرنا پڑا ، واپس مکہ المکرمہ تشریف لائے اور مطعم بن عدی کی حفاظت میں ٹھہرے ۔
::: اِس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو سفر معراج کروایا گیا ، اور بُراق پر سوار کروا کر مسجد الحرام سے مسجد الاقصی لے جایا گیا جہاں اُنہوں نے سب نبیوں کی اِمامت کروائی ، اور وہاں سے آسمانوں پر لے جایا گیا ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے واپس آ کر اپنے اِس سفر کی خبر دِی تو سب نے انکی بات کو جُھٹلا دِیا ، صِرف ابو بکر رضی اللہ عنہُ نے تصدیق کی اور اسی وجہ سے اُن کو ''' الصدیق ''' لقب دِیا گیا ،
::: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ کے دِین کی دعوت کے لیے مختلف مواقع (میلوں ، اجتماعی بازاروں ، منڈیوں ) میں اکٹھے ہونے والے قبیلوں کے پاس تشریف لے جاتے تو ابو لھب اُن لوگوں کو کہتا کہ ، یہ جادُوگر ہے ، یہ جھوٹا ہے اِس کی بات مت سُننا ، اور لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ملنے اور اُن سے بات کرنے سے دُور رہتے ، یہاں تک نبوت کے گیارویں سال میں حج کے لیے آنے والے قبیلہ خزرج کے ایک وفد کی اُن صلی اللہ علیہ وسلم سے مُلاقات ہوئی ، اور اللہ نے اُن لوگوں کے دِل اِسلام کے لیے کھول دیے اور وہ لوگ مُسلمان ہو گئے اور اِسلام کی دعوت لے کر مدینہ المنورہ(جِس کا نام اُس وقت تک ''یثرب ''تھا جِسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے تبدیل فرما دِیا لیکن افسوس کہ کچھ لوگ اب تک اُسے اُسی پرانے نام سے ذِکر کرتے ہیں) واپس چلے گئے اور اُن کی دعوت پر اللہ نے کئی اوروں کو مُسلمان بنا دِیا ،
::: نبوت کے بارہویں سال میں مدینہ سے مُسلمانوں کے گروہ نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی جِسے بیعتِ عُقبہ الا ُولیٰ یعنی پہلی بیعت عُقبہ کہا جاتا ہے، اور اُن کے ساتھ اِسلام کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے سفیر'' مُصعب بن عُمیر رضی اللہ عنہُ ''جنہیں'' مُصعب الخیر'' بھی کہا جاتا ہے کو بھیجا گیا ، اور اُن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے کئی کو جہنم سے نجات دی اور اپنے دِین میں داخل فرمایا ، ،
::: اگلے سال مُصعب بن عُمیر رضی اللہ عنہُ کے ساتھ کئی مسلمان مدینہ سے مکہ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ، اِس بیعت کو بیعت عُقبہ الثانیہ یعنی دُوسری بیعت عُقبہ کہا جاتا ہے ،( مُصعب الخیر رضی اللہ عنہُ کے بارے میں ایک مضمون''' اپنے مثالی شخصیت چنیئے '''میں بھی شامل ہے اور الرسالہ مُحرم ١٤٢٩ ہجری میں میں بھی )
::: اِس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو مدینہ ہجرت کی اِجازت مرحمت فرمائی تو سب مُسلمان ہجرت کر گئے یہاں تک مکہ میں صِرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر اور علی رضی اللہ عنہما رہ گئے ،
::: جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کی اجازت عطاء فرمائی تو نبوت کے تیرہویں (١٣) سال میں ستائیس (٢٧) صفر کی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہُ کے ساتھ اپنا گھر چھوڑا اور مدینہ روانہ ہو گئے ،
::: اور بارہ ربیع الاول ، سوموار کے دِن ضُحیٰ کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم قُباء میں داخل ہوئے ، انصار نے اپنے تمام اسلحہ کے ساتھ اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا اِستقبال کیا ،
::: انصار سے سب سے پہلا خطاب ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے سب سے پہلا خطاب فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا (یایُّہا النَّاس اَفشُوا السَّلَامَ وَاَطعِمُوا الطَّعَامَ وَصَلُّوا بِاللَّیلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ تَدخُلُوا الجَنَّۃَ بِسَلَامٍ )( اے لوگو سلام پھیلاؤ ، اور (بھوکوں کو) کھانا کِھلاؤ ، اور رشتہ داریوں کو جوڑے رکھو ، اور نماز پڑہو جب کہ لوگ سو رہے ہوتے ہیں، سلامتی کے ساتھ جنّت میں داخل ہو جاؤ گے) سنن ابن ماجہ /کتاب اِقامۃ الصلاۃ و السنّۃ فیھا / باب ١٧٤،
::: اور قُباء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسلام کی سب سے پہلی مسجد تعمیر فرمائی ، اور پھر مدینہ تشریف لے گئے ،
::: مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سب پہلے مسجدِ نبوی تعمیر فرمائی اور مسجد کی مشرقی جانب اپنی بیگمات کے لیے کمرے بنوائے ،
::: مہاجرین اور انصار میں بھائی چارہ کروایا ، یہودیوں کے قبیلوں بنو النضیر ، بنو القِینُقاع ، اور بنو قُریظہ کے ساتھ معاہدے فرمائے اور اِن کو باقاعدہ لکھوایا ،
::: اسی سال شعبان میں اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے اور زکوۃِ فِطر (فِطرانہ ) فرض فرمایا ، اور رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی خواہش کے مُطابق مسجد الحرام مکہ المکرمہ کو قبلہ مقرر فرمایا ،
باقی اگلے مراسلے میں ملاحظہ فرمایے ،
Bookmarks