عورت کے بارے میں اقبال کا نظریہ بالکل اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے وہ عورت کے لئے وہی طرز زندگی پسند کرتے ہیں جو اسلام کے ابتدائی دور میں تھا کہ مروجہ برقعے کے بغیر بھی وہ شرعی پردے کے اہتمام اور شرم و حیا اور عفت و عصمت کے پورے احساس کے ساتھ زندگی کی تما م سرگرمیوں میں پوری طرح حصہ لیتی ہیں۔ اس لئے طرابلس کی جنگ میں ایک لڑکی فاطمہ بنت عبداللہ غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی تو اس واقعہ سے وہ اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اسی لڑکی کے نام کوہی عنوان بنا کر اپنی مشہو ر نظم لکھی۔
فاطمہ! تو آبرو ئے ملت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر!
ہے جسارت آفریں شوق شہادت کس قدر!
یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھیاقبال کی نظر میں عورت کا ایک مخصوص دائرہ کار ہے۔ اور اسی کے باہر نکل کر اگر وہ ٹائپسٹ ، کلرک اور اسی قسم کے کاموں میں مصروف ہو گی تو اپنے فرائض کو ادا نہیں کرسکے گی۔ اور اسی طرح انسانی معاشرہ درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ البتہ اپنے دائرہ کار میں اسے شرعی پردہ کے اہتمام کے ساتھ بھی اسی طریقہ سے زندگی گزارنی چاہیے کہ معاشرہ پر اس کے نیک اثرات مرتب ہوں اور اس کے پرتو سے حریم ِ کائنات اس طرح روشن ہو جس طرح ذاتِ باری تعالی کی تجلی حجاب کے باوجود کائنات پر پڑ رہی ہے
مرد کی برتری
اس سلسلہ میں ڈاکٹر یوسف حسین خان”روح اقبال “ میں لکھتے ہیں۔ ” اقبال کہتا ہے کہ عورت کو بھی وہی انسانی حقوق حاصل ہیں جو مرد کو لیکن دونوں کا دائرہ عمل الگ الگ ہے دونوں اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ تعاون عمل کرکے تمدن کی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ وہ (اقبال ) مرد اور عورت کی مکمل مساوات کا قائل نہ تھا۔“
عورت پر مرد کی برتری کی وجہ اقبال کی نظر میں وہی ہے جو اسلام نے بتائی ہے کہ عورت کا دائرہ کار مرد کی نسبت مختلف ہے اس لحاظ سے ان کے درمیان مکمل مساوات کا نظریہ درست نہیں۔ اس عدم مساوات کا فائدہ بھی بالواسطہ طور پر عورت کو ہی پہنچتا ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری مرد پر آتی ہے۔
اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگو ں میں ہے لہو سرد
نے پردہ ، نہ تعلیم ، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت زن کا نگہبان ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
یہی احتیاج اور کمزوری و ہ نکتہ ہے جس کے باعث مر د کو عورت پر کسی قدر برتری حاصل ہے اور یہ تقاضائے فطرت ہے۔ اس کے خلاف عمل کرنے سے معاشرے میں انتشار لازم آتا ہے۔
پردہ
اقبال عورت کے لئے پردہ کے حامی ہیں کیونکہ شرعی پردہ عورت کے کسی سرگرمی میں حائل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں ایک عورت زندگی کی ہر سرگرمی میں حصہ لے سکتی ہے اور لیتی رہی ہے اسلام میں پردہ کا معیار مروجہ برقعہ ہر گز نہیں ہے اسی برقعہ کے بارے میں کسی شاعر نے بڑ ا اچھا شعر کہا ہے۔
بے حجابی یہ کہ ہر شے سے ہے جلوہ آشکار
اس پہ پردہ یہ کہ صورت آج تک نادید ہے
بلکہ اصل پردہ وہ بے حجابی اور نمود و نمائش سے پرہیز اور شرم و حیا کے مکمل احساس کا نام ہے اور یہ پردہ عورت کے لئے اپنے دائرہ کا ر میں کسی سرگرمی کی رکاوٹ نہیں بنتا۔ اقبال کی نظر میں اصل بات یہ ہے کہ آدمی کی شخصیت اور حقیقت ذات پر پردہ نہ پڑا ہو اور اس کی خودی آشکار ہو چکی ہو۔
بہت رنگ بدلے سپہر بریں نے
خ ±دایا یہ دنیا جہاں تھی وہیں ہے
تفاوت نہ دیکھا زن و شو میں ، میں نے
وہ خلوت نشیں ہے! یہ خلوت نشیں ہے!
ابھی تک ہے پردے میں اولاد آدم
کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے
اس بارے میں پروفیسر عزیز احمد اپنی کتاب ”اقبال نئی تشکیل “ میں لکھتے ہیں۔ ” اقبال کے نزدیک عورت اور مرد دونوں مل کر کائنات عشق کی تخلیق کرتے ہیں عورت زندگی کی آگ کی خازن ہے وہ انسانیت کی آگ میں اپنے آپ کو جھونکتی ہے۔ اور اس آگ کی تپش سے ارتقائ پزیر انسان پیدا ہوتے ہیں۔۔۔۔ اقبال کے نزدیک عورت کو خلوت کی ضرورت ہے اور مرد کو جلوت کی۔“
یہی وجہ ہے کہ اقبال ، عورت کی بے پردگی کے خلاف ہیں ان کے خیال میں پرد ہ میں رہ کر ہی عورت کو اپنی ذات کے امکانات کو سمجھنے کا موقعہ ملتا ہے۔ گھر کے ماحول میں وہ سماجی خرابیوں سے محفوظ رہ کر خاندان کی تعمیر کا فرض ادا کرتی ہے۔ جو معاشرہ کی بنیادی اکائی ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اپنے گھر میں وہ یکسوئی کے ساتھ آئند ہ نسل کی تربیت کا اہم فریضہ انجام دیتی ہے اس کے برخلاف جب پردے سے باہر آجاتی ہے تو زیب و زینت ، نمائش ، بے باکی، بے حیائی اور ذہنی پراگندگی کا شکار ہو جاتی ہے چنانچہ یہ فطری اصول ہے کہ عورت کے ذاتی جوہر خلوت میں کھلتے ہیں جلوت میں نہیں۔ ”خلوت“ کے عنوان سے ایک نظم میں اقبال نے کہا ہے۔
رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے
روشن ہے نگہ آئنہ دل ہے مکدر
بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے
ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
وہ قطرہ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر
خلوت میں خودی ہوتی ہے خود گیر و لیکن
خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر!
عورتوں کی تعلیم
اقبال عورت کے لئے تعلیم کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن اس تعلیم کا نصاب ایسا ہونا چاہیے جو عورت کو اس کے فرائض اور اس کی صلاحیتوں سے آگاہ کرے اور اس کی بنیاد دین کے عالمگیر ا ±صولوں پر ہونی چاہیے۔ صرف دنیاوی تعلیم اور اسی قسم کی تعلیم جو عورت کو نام نہاد آزادی کی جانب راغت کرتی ہو۔ بھیانک نتائج کی حامل ہوگی۔
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت
ہے حضرت انسان کے لئے اس کا ثمرموت
اس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق و محبت کے لئے علم و ہنر موت
اقبال کے خیال میں اگر علم و ہنر کے میدان میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکے تو اس کا مرتبہ کم نہیں ہو جاتا۔ اس کے لئے یہ شرف ہی بہت بڑا ہے کہ زندگی کے ہر میدان میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے مشاہیر اس کی گود میں پروان چڑھتے ہیں اور دنیا کا کوئی انسان نہیں جو اس کا ممنونِ احسان نہ ہو۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز ِ دروں
شرف میں بڑھ کر ثریا سے مشت خا ک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کادر مکنوں!
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن!
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں
آزادی نسواں
اقبال اگرچہ عورتوں کے لئے صحیح تعلیم ، ان کی حقیقی آزادی اور ان کی ترقی کے خواہاں ہیں۔ لیکن آزادی نسواں کے مغربی تصور کو قبول کرنے کے لئے وہ تیار نہیں ہیں اس آزادی سے ان کی نظر میں عورتوں کی مشکلات آسان نہیں بلکہ اور پیچیدہ ہو جائیں گی۔ اور اس طرح یہ تحریک عورت کو آزاد نہیں بلکہ بے شمار مسائل کا غلام بنا دے گی۔ ثبوت کے طور پر مغربی معاشرہ کی مثال کو وہ سامنے رکھتے ہےں جس نے عورت کو بے بنیاد آزادی دے دی تھی تو اب وہ اس کے لئے درد ِ سر کا باعث بنی ہوئی ہے۔ کہ مرد و زن کا رشتہ بھی کٹ کر رہ گیا ہے۔
ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا!
مگر یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں
قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں
گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ پرویں
فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور!
کہ مرد سادہ ہے بےچارہ زن شناس نہیں
اقبال کی نظر میں آزادی نسواں یا آزادی رجال کے نعرے کوئی معنی نہیں رکھتے بلکہ انتہائی گمراہ کن ہیں۔ کیونکہ عورت اور مرد دونوں کو مل کر زندگی کا بوجھ ا ±ٹھانا ہوتا ہے۔ اور زندگی کو آگے بڑھانے اور سنوارنے کے لئے دونوں کے باہمی تعاون ربط اور ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے دونوں کے کامل تعاون کے بغیر زندگی کاکام ادھورا اور اس کی رونق پھیکی رہ جاتی ہے۔ اس لئے ان دونوں کو اپنے فطری حدود میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے زندگی کو بنانے سنوارنے کا کام کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کا ساتھی ثابت ہونا چاہیے۔ نہ کہ مدمقابل چنانچہ آزادی نسواں کے بارے میں وہ فیصلہ عورت پر ہی چھوڑ تے ہیں کہ وہ خود سوچے کہ اس کے لئے بہتر کیا ہے۔
اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں کر سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے ، وہ قند
کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں ، معذور ہیں، مردان خرد مند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادی نسواں کہ زمرد کا گلوبند!
امومیت اور مادری فرائض
اقبال کی نظر میں عورت کی عظمت کا راز اس کے فرض امومیت اور مادری میں پوشیدہ ہے معاشرتی اور سماجی زندگی میں ماں کو مرکز ی حیثیت حاصل ہے۔ اور خاندانوں کی زندگی اسی جذبہ امومیت سے ہی وابستہ ہے۔ ماں کی گود پہلا دبستان ہے جو انسان کو اخلاق اور شرافت کا سبق سکھاتا ہے۔ جس قوم کی مائیں بلند خیال عالی ہمت اور شائستہ و مہذب ہو گی اس قوم کے بچے یقینا اچھا معاشرہ تعمیر کرنے کے قابل بن سکیں گے۔ گھر سے باہر کی زندگی میں مرد کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن گھر کے اندر کی زندگی میں عورت کو فوقیت حاصل ہے۔ کیونکہ اس کے ذمہ نئی نسل کی پرورش ہوتی ہے۔ اور اس نئی نسل کی صحیح پرورش و پرداخت پر قوم کے مسقبل کا دارمدار ہوتا ہے۔ اس لئے عورت کا شرف و امتیاز اس کی ماں ہونے کی وجہ سے ہے۔ جس قوم کی عورتیں فرائض ِ امومت ادا کرنے سے کترانے لگتی ہے اس کا معاشرتی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اس کا عائلی نظام انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ افراد خاندان کے درمیان رشتہ عورت کمزور پڑ جاتا ہے۔ اور اخلاقی خوبیاں دم توڑ دیتی ہیں۔ مغربی تمد ن کی اقدار عالیہ کو اس لئے زوال آگیاہے کہ وہاں کی عورت آزادی کے نام جذبہ امومت سے بھی محروم ہوتی چلی جا رہی ہے۔
کوئی پوچھے حکیم یورپ سے
ہند و یونان ہیں جس کے حلقہ بگوش!
کیا یہی ہے معاشرت کا کمال
مرد بےکار و زن تہی آغوش!
عورتوں کے لئے مغربی تعلیم کی بھی اقبال اسی لئے مخالفت کرتے ہیں کہ اس سے ماں کی مامتا کی روایت کمزور پڑتی ہے اور عورت اپنی فطری خصوصیات سے محروم ہو جاتی ہے۔
اقبال کی نظر میں دنیا کی تمام سرگرمیوں کی اصل ماں کی ذات ہے ، ماں کی ذات امین ممکنات ہوتی ہے اور دنیا کے انقلابات ماﺅں کی گود میں ہی پرور ش پاتے ہیں۔ اسی لئے ماں کی ہستی کسی قوم کے لئے سب سے زیادہ قیمتی متاع ہوتی ہے۔ جو قوم اپنی ماﺅں کی قدر نہیں کرتی اس کا نظام ہستی بہت جلد بکھر جاتا ہے۔
جہاں رامحکمی از ا ±میات ست
نہاد شان امین ممکنا ت ست
اگر ایں نکتہ را قومی نداند
نظام کروبارش بے ثبات ست
ماں کی ہستی اس قدر بلند مرتبت ہے کہ قوم کہ حال و مسقبل انہی کے فیض سے ترتیب پاتا ہے۔ قوم کی تقدیر بنانے میں ماں کا کردار بنیادی ہے اس لئے عورت کو چاہیے کہ فرض امومیت کی ادائیگی میں اپنی پوری صلاحیتیں صرف کر دی کہ اس کی خودی کا استحکام اسی ذریعہ سے ہوتا ہے۔
Bookmarks