رقیب سے ۔ ۔ ۔ ۔
آ کہ وابستہ ہیں اُس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اِس دل کو پری خانہ بنا رکھا ہے
جس کی اُلفت میں بُھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا ہے
آشنا ہیں تیرے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اُسی رعناٴی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سُود عبادت کی ہے
تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہواٴیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ برسا ہے اس بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوٴی راتوں کی کسک باقی ہے
تُو نے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رُخسار وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لُٹا دی ہم نے
تجھ پہ اُٹھی ہیں وہ کھوٴی ہوٴی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ اُلفت کے
اِتنے احسان کہ گنواٴوں تو گِنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا پایا ہے
جُز تیرے اور کو سمجھاٴوں تو سمجھا نہ سکوں
عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے دُکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصاٴیب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رُخِ زرد کے معنی سیکھے
جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے
اشک آنکھوں میں بِلکتے ہوٴے سو جاتے ہیں
ناتوانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب
بازو تولے ہوٴے منڈلاتے ہوٴے آتے ہیں
جب بھی بِکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے اُبلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
Bookmarks