سُوْرَةُ النَّاس
نام :
قرآن مجید کی آخری دو سورتوں سورۃ الناس اور سورۃ الفلق کو مشترکہ طور پر مُعَوِّذَتَیُن کہا جاتا ہے۔
اگرچہ قرآن مجید کی یہ آخری دوسورتیں بجائے خود الگ الگ ہیں، اور مصحف میں الگ ناموں ہی سے لکھی ہوئی ہیں، لیکن ان کے درمیان باہم اتنا گہرا تعلق ہے، اور ان کے مضامین ایک دوسرے سے اتنی قریبی مناسبت رکھتے ہیں کہ ان کا ایک مشترک نام "مُعَوِّذَتَیُن" (پناہ مانگنے والی دو سورتیں) رکھا گیا ہے۔ امام بیہقی نے دلائل نبوت میں لکھا ہے کہ یہ نازل بھی ایک ساتھ ہی ہوئی ہیں، اسی وجہ سے دونوں کا مجموعی نام معوذتین ہے۔ ہم یہاں دونوں پر ایک ہی مضمون لکھ رہے ہیں کیونکہ ان سے متعلقہ مسائل و مباحث بالکل یکساں ہیں۔
زمانۂ نزول :
حضرت حسن بصر، عکرمہ، عطاء اور جابر بن زید کہتے ہیں کہ یہ سورتیں مکی ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی ایک روایت یہی ہے۔ مگر ان سے دوسری روایت یہ ہے کہ یہ مدنی ہیں اور یہی قول حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور قتادہ کا بھی ہے۔ اس دوسرے قول کو جو روایات تقویت پہنچاتی ہیں ان میں سے ایک مسلم، ترمذی، نسائی اور مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک روز مجھ سے فرمایا:
” الم تر اٰ یاتٍ اُنزلَت اللیلۃ، لم یُرَ مثلھن، اَعُوُذُ بَرَبّ الُفَلَق، اَعُوذ بِرَبِ النَّاس - تمہیں کچھ پتہ ہے کہ آج رات مجھ پر کیسی آیات نازل ہوئی ہیں؟ یہ بے مثل آیات ہیں۔ اعوذ بربّ الفلق اور اعوذ بربّ الناس “
یہ حدیث اس بنا پر ان سورتوں کے مدنی ہونی کی دلیل ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں ایمان لائے تھے، جیسا کہ ابو داؤد اور نسائی نے خود ان کے اپنے بیان سے نقل کیا ہے۔ دوسری روایات جو اس قول کی تقویت کی موجب بنی ہیں وہ ابن سعد، مُحیّ السُّنّہ بَغَوِی، امام نَسَفِی، امام بَہَیقَی، حافظ ابن حَجَر، حافظ بدر الدین عَینی، عَبُدبن حُمیّد وغیر ہم کی نقل کردہ یہ روایات ہیں کہ جب مدینے میں یہود نے رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا تھا اور اس کے اثر سے حضور ﷺ بیمار ہوگئے تھےاس وقت یہ سورتیں نازل ہوئی تھیں۔ ابن سعد نے واقدی کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ یہ سنہ 7 ھ کا واقعہ ہے۔ اسی بنا پر سفیان بن عُیَینَہ نے بھی ان سورتوں کو مدنی کہا ہے۔
لیکن جیسا کہ سورۃ الاخلاص کے مضمون میں بیان ہو چکا ہے کہ کسی سورۃ یا آیت کے متعلق جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ فلاں موقع پر نازل ہوئی تھی تو اس کا مطلب لازما یہی نہیں ہوتا کہ وہ پہلی مرتبہ اسی موقع پر نازل ہوئی تھی، بلکہ بعض اوقات ایسا ہوا ہے کہ ایک سورت یا آیت پہلے نازل ہوچکی تھی، اور پھر کوئی خاص واقعہ یا صورت حال پیش آنے پر اللہ تعالی کی طرف سے اسی کی طرف دوبارہ بلکہ کبھی کبھی بار بار حضور ﷺ کو توجہ دلائی جاتی تھی۔ ہمارے نزدیک ایسا ہی معاملہ معوذتین کا بھی ہے۔ ان کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ یہ ابتداءً مکہ میں اس وقت نازل ہوئی ہوں گی جب وہاں حضور ﷺ کی مخالفت خوب زور پکڑ چکی تھی۔ بعد میں جب مدینہ طیبہ میں منافقین، یہود، اور مشرکین کی مخالفت کے طوفان اٹھے تو حضور ﷺ کو پھر انہی دونوں سورتوں کے پڑھنے کی تلقین کی گئی جیسا کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا روایت میں ذکر آیا ہے۔ اس کے بعد جب آپ ﷺ پر جادو کیا گیا اور آپ ﷺ کی علالت مزاج نے شدت اختیار کی تو اللہ کے حکم سے جبریل علیہ السلام نےآکر پھر یہی سورتیں پڑھنے کی آپ کو ہدایت کی۔ اس لیے ہمارے نزدیک ان مفسرین کا بیان ہی زیادہ معتبر ہے جو ان دونوں سورتوں کو مکی قرار دیتے ہیں۔ جادو کے معاملہ کے ساتھ ان کو مخصوص سمجھے میں تو یہ امر بھی مانع ہے کہ اس کے ساتھ صرف سورۂ فلق کی صرف ایک آیت وَمِنُ شَرِّ النّفّٰثٰتِ فِی العُقَدِ ہی تعلق رکھتی ہے، سورۂ فلق کی باقی آیات اور پوری سورۂ الناس کا اس معاملہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔
Bookmarks