امید ھے سب یار دوست خیریت سے ہونگے۔
اب آتے ہیں منصفِ اعمال کی طرف
ویسے حیران و پریشان ہونے کی ضرورت نہیں مصنفِ اعمال بس ایک چھوٹی سی کہانی ھے رات ک پچھلے پہر کی۔
اچھے خاصۓ دن کو کچھ نا کر کے تھک جانے والے جناب ہم (خود کو عزت مآب بھی نہیں کہ سکتے) کے ای ایس سی کی مہربانیوں تلے ہمارے نا تواں جسم کو بڑی راحت مل رہی تھی اور ہم بیچارے نیند میں مستقبل کی تیاری کر رہے تھے ابا جی سے چپھا کر۔ ھم تو وہ غفور انکل کی بیٹی کے ساتھ شادی ہونے کے بعد نزے سے اپنی شادی میں دبا کے کہا رہے تھے۔ کیونکے بقول ابا جان آج سب نے خوب کھا کر دل بھرنا تھا کیونکے کھانے کا سارا انتظام تو ہمارے سسر صاحب نے اپنے سر لے رکھا تھا آخر کو اکلوتی بیٹی کے باپ تھے ۔ تو خیر میں کہ رہا تھا کہ ہم مظلوم شکل ہیرو نیند میں کھانے میں مصروف تھے کہ اچانک ہلچل مچی ہم تو سمجھے کہ کویہ جناب کھانے میں ہمارے ساتھ حصہ دار بن رہے ہیں تو ہم نے اپنے جیب میں موجود وصیت نامہ کو نکال کر غور سے پہڑھا اور لڑمرنے کے لیے تیار ھو کر نکل پڑے پر جب آنکھ کھلی تو جناب ہم بستر پر تھے اور ہاتھ میں ہمارے نام پر بننے والے ابا جان کے چشموں کی رسید تھی جس پر سرکاری ہسپتال کا ٹھپہ لگا ہوا تھا۔ حواس بحال ھوئے تو اپنے انجان دشمن کا خیال آیا پہلے تو لگا کہ کوئی چور حضرت گھر کا دورہ کرنے آئے ہونگے۔ تو ھم بستر سے اچھل پھڑے ۔ اور ٹیبل کے پاس پہنچھے۔ نہیں جناب چور کو پکڑنے کے لیے نہیں اصل میں پچھلے ہفتہ اسی طرح ایک چور حضرت رات کو دورہ پر آئے تھے اور گھر کی حالت۔ زار کو دیکھتے ھوئے جناب نے ہمارے حکمران صاحبان کی طرح کچھ پیسے چھوڑگئے تھے ساتھ میں ایک پرچی تھی کہ حضرات آپ سب کی زمہ داری میں قبول کر لیتا یوں اگر آپ محلےوالوں کا سامان انکو لو ٹا دیں پر پھر مجلسِ شوٰری نے فیصلہ کیا کہ جناب اس طرح ہم ہم نقصان میں رہتے ہیں اسلیے انکو انکار کرنا تھا اب جناب ہم نے اپنے اسکول کی کاپیوں میں سے ایک کاپی کی قربانی دی اور گھر میں ھر جگہ نوٹس لگا دیئے کہ حضرت آپکے اس نیک کام کا شکریہ پر ہم لوگ با خدا خود اس ظالم دنیا کا سامنا کر سکتے ہیں۔
ہوں ہر کوئی رات کو آہٹ پا کر کان کھڑے کر دیتا۔ چور صاحب کے بارے میں جاننے کے لیے کوئی بھی بے چیں نہیں تھا حضرات بلکہ ہم سب تو انکے چھوڑے ھوئے پیسوں کو حاصل کر نے کی تاک میں تھے۔ خیر اب فارسی ندارد آپکو کیا مثال دے تو جناب یہ تو گزری ھوئی بات تھی اب آتے ھیں حال کی طرف تو حضرات کے میں نے ٹیبل کے پاس جا کر دیکھا پر کچھ نہیں تھا۔ تو مایوس ھو کر واپس بستر پر پہنچھا۔ اب کر تے کیا نا کرتے ۔ پھر سے سونے کی تیاری کرنے لگے پر اب تو جناب چور صاحب کا انظار کرنے لگے۔ اب پھر سے وہ آواز آنی شروع ھوئی تو ہم نے خوب غور سے دیکھا تو پتہ چلا جناب وہ تو مچھر صاحب تھے ۔ اب قدرت نے ہمیں اشرفلمخلوقات بنا دیا پر مچھر نامی اس کیڑے سے خود کو بچا نہ پائے۔ چاہے وہ کسی بھی طرھ کا مچھر ھو۔ خیر اب نیند تو ندارد تھی تو ہمنے سوچھا کیا کیا جائے۔ آخر سوئے ھوئے دماغ نے بڑھبڑاکر کہا کہ مچھر صاحب سے انٹرویو لے لو۔ اب کیا کرتے جناب دماغ حکم دیں اور اسکی تعمیل نا ھو ایسا تو ممکن ہی نہیں۔
بقیہ پھر کسی وقت لکھ دیں گے اگر آپکو پسند آئی۔
Bookmarks