اللہ رب العزت نے کائنات کو وجود بخشا۔ جن و انس و ملک کو زندگی عطا کی۔ بے حد و حساب مخلوقات کو تخلیق کیا۔حضرتِ انسان کو وجود بخشنے سے پہلے ہی جن و ملک کو آگاہ کر دیاکہ جب میں انسانو ں کے جدِ امجد کو معرضِ وجود میں لے آؤں تو تم اس کو سجدہ کرنا یہ زمین میں میرا نائب ہو گا۔ عرشی مخلوق نے سرِ تسلیم خم کیا مگر اُن نوریوں میں موجود ایک ناری اڑ گیا،لہذا خالق و مالک نے حکم دیا کہ "نکل جاؤ میرے دربار سے تم رائندہ درگاہ ہوئے"(الحجر)۔ اس نے انتہائی ہتک محسوس کی, بدلہ لینے کی ٹھانی اور انتہائی ڈھٹائی سے رب رحیم وکریم کے حضور معینہ مدت کے لیے مہلت مانگی، اس کی شان بے نیازی نے کہا "جا تجھے مہلت دی گئی"(الحجر)۔
دوسری طرف حضرت ِ آدم و حوا جنت کی ناز و نعم میں حمدِ باری تعالیٰ کے ترانے کنگناتے تھے، "شیطان نے انہیں وسوسہ ڈالا " (الاعراف) اور اپنے ساتھ زمین پر اتروا لیا۔نسلِ انسانی زمین پر پھیلنا شروع ہوئی۔ پہلے حضرت آدم پھر گاہے گاہے خداتعالیٰ کے پیمبر اس نسلِ انسانی کو خدا سے جوڑنے کے لیے آتے رہے۔ یہ بدبخت بھی خم ٹھونک کر میدان میں اترآیا۔ پیمبر بندوں کو عبد الرحمن بناتے رہے یہ خبیث انہیں عبد الشیطان بنانے میں لگا رہا۔ وقت کا دھارا بہتا رہا ، آخر کار کائنات کا سردار، رحمۃ العالمین سید المرسلین محمد مصطفی احمد مجتبی ؐ کی نبوت کا ڈنکا بجا۔ آپ ؐ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام اور آخری کتاب عنایت فرمائی۔ تصور کیجئے جب سنایا جانے والا کلام ہو رب العالمین کا اور زبان ہو رحمۃ العالمین کی تو کیوں نہ دلوں کی دنیا تہہ و بالا ہو جبکہ خود یہ کلام اپنے بارے میں کہتا ہے "شفاء لما فی الصدور"(الصف) یہ قرآن دلوں کی بیماریوں کے لیے شفاء ہے ۔ ان بیماریوں میں سب سے بڑی بیماری شرک ہے۔
نتیجۃََ دلوں کے زنگ دور ہونے شروع ہوئے، لوگ پروانہ وار بنی اکرم ؐ کے ارد گرد جمع ہونے لگے، نورِ ایمانی میں ترقی ہونے لگی جس کا یہ کلام خود اعلان کرتا ہے۔ ''جب ان پر میری آیتیں پڑھی جاتی ہیںتو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے''(الانفال)۔
اِدھر یہ کارواں بڑھتا رہا۔ اُدھر وہ بدبخت و ملعون کُڑہتا رہا اور قرآن نے وہ تاثیر دکھائی کہ" نبی ؐ "نماز میں قرآن پڑھتا ہے تو پاؤں ورم کر کے پھٹ جاتے ہیں، نبی کے صحابہ ؓ پر بھی وہ رنگ چڑھا، کہ جب "صدیق "اپنے گھر کے صحن میں قرآن پڑھتا ہے تو اسے بلک بلک کر روتا دیکھ کر گلی میں عورتوں اور بچوں کا تانتہ بندھ جاتا ہے۔ بنی اکرم ؐ کے قتل کے ارادے سے جانے والا اپنی بہن کے گھر سے اس کلام کے کچھ الفاظ سن کر ایسا بے خود ہوجاتا ہے کہ جانی دشمن ، جانی دوست بن کر ابد الآباد کا ساتھ حاصل کر لیتا ہے۔
یہ تو اپنوں کا حال ہے غیر بھی رات کو چھپ چھپ کر اس کلام کو سننے آتے۔ ابو جہل اور اس کے دو ساتھیوں کا قصہ مشہور ہے اگلی رات نہ آنے کا وعدہ کرکے پھر وعدہ خلافی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
یہ دن رات کے مناظر دیکھ کر وہ لعین پیچ و تاب کھاتا رہا۔ لہذا ایک دن وہ مکہ کے بڑے سرداروں کو ورغلا کر ان کی "اسمبلی " دار الندوہ میں لے آیا۔ پہلا اجلاس ہوا، ایجنڈا یہ تھا کہ محمد کا کلام سننے سے لوگوں کو کیسے روکا جائے؟ فیصلہ ہوا۔ یوں کہو ; "تراشا ہوا جھوٹ ہے" ، "صریح جادو ہے (سبائ)"۔ "مت سنو اس قران کو ،اگر پھر بھی کہیں پیمبر پڑھنے لگے تو شور مچاؤ تاکہ لوگ اس کی بات سمجھ نہ سکیں شاید اس طریقے سے تم غالب آجاؤ (حم سجدہ)"(مفہوم)۔ مگر خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہوئے۔کچھ سالوں بعد ایک مرتبہ پھر مکہ کے سرداروں "اقوام ِ متحدہ " کو اکٹھا کر لایا، اجلاس جاری ہے ، خود یہ خبیث بھی "شیخ نجدی "کا بہروپ دھارے بیٹھا ہے،مشورہ ہوتا ہے کہ محمد ؐ کا کیا کریں؟ ایک نے کہا قید کر ڈالو۔ شیخ نجدی نے فوراََ کہا نہ نہ اس کے ساتھی اس پر جان چھڑکتے ہیں چھڑا کر لے جائیں گے۔ ایک اور بولا جلا وطن کر دو۔ شیخ نجدی کو ابھی بھی مراد بر آتی نظر نہیں آئی، کہنے لگا ؛ نہیں ایسا کرنا ٹھیک نہیں ، تم اس کے لہجے کی مٹھاس اور اس کے کلام کی تاثیر سے اچھی طرح واقف ہو، جس ملک میں جائے گا دنیا اس کے گرد اکٹھی ہو جائے گی، پھر انہیں لے کر تم پر حملہ کر دے گا۔ سارے کہنے لگے پھر تو ہی بتا کیا کریں؟ اب اس نے کہا کہ حل تو صرف ایک ہے ''قتل کر دو'' آواز دب جائے گی، چراغ بجھ جائے گا۔ مرحبا مرحبا کی صدائیں بلند ہوئیں ۔ مگر ایک مسئلہ کھڑا ہو گیا کہ وہ لوگ بدلہ لیں گے ، اس کا کیا ہوگا؟ آخر کار nato" " وجود میں آئی، طہ یہ ہوا کہ ہر قبیلے سے ایک آدمی چن لیا جائے سب مل کر قتل کریں تو محمدؐ کے قبیلے والے سب سے تو نہیں لڑ سکیں گے آخر کار دیت پر راضی ہو جائیں گے، تو ایک'' world bank '' تشکیل
دے کر دیت ادا کر دیں گے۔ لہذاعمل شروع ہوا ،جواس وقت تو پورا نہ ہو سکا مگریہ عمل آج تک جاری ہے کہ آواز دبا دو ، قتل کر دو، شاید چراغ بجھ جائے۔ وہ "united nations"، "nato" اور "world bank" آج تک مصروف ِ عمل ہے وہ شیخ نجدی آج بھی اسی طرح ان کو اپنیخدمات مفت فراہم کرتا رہتا ہے۔ وہی رزم ِ حق وباطل آج تک سجی ہوئی ہے۔
لہذا محمد ؐ کو ایک یہودی عورت کے ذریعے کھانے کی دعوت میں زہر دیا گیاجو بلآخر شہادت کا ذریعہ بنامگر چراغ نہ بجھا، عمر کو شہید کر دیا گیامگر آواز دب نہ سکی، عثمان کے خونِ ناحق سے اسی کلام کو رنگین کر دیا گیا مگر چراغ نہیں بجھا، علی کو منصب شہادت پا گیا مگر چراغ نہیں بجھا، حُسنِ حسن کو زہر آلود کر دیا گیامگر آواز دب نہ سکی ، حُسینِ حَسین کے مقدس خون سے کربلا کا میدان سج گیا مگر چراغ نہیں بجھا، سعید ابن جبیر ؒ کو دربار میں ذبح کر دیا گیا مگر آواز دب نہ سکی،ابو حنیفہ کو جیل میں زہر دے کر موت کی نیند سلا دیا گیا مگر چراغ نہ بجھا، ابن تیمہ موت کی وادیوں میں اتر گیا مگر آواز نہ دب سکی، احمد بن حنبل دنیا سے چلا گیا مگر چراغ نہ بجھا، امام مالک قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتا رہا مگر آواز دب نہ سکی، امام سرخسی کو اندھے کنویں میں اتار دیا گیا مگر آواز دب نہ سکی ، اس مردِ قلندر نے اسی کنویں کے اندرسے تیس جلدوں پر مشتمل "مبسوط " جیسی مایہ ناز کتاب لکھوا دی، مجدد الف ثانی کو پابند ِ سلاسل کیا گیا مگر آواز نہ دب سکی، مرزا مظہر جانِ جاناں کو شہید کر دیا گیا مگر چراغ نہ بجھا، شاہ ولی اللہ کے انگوٹھے کاٹ دیے گئے مگر آواز نہ دبی، سید احمد شہیداور شاہ اسماعیل شہید نے بالاکوٹ کی سر زمین پر جان جیسی قیمتی متاع تج دی مگر چراغ نہ بجھا، شاملی کے میدان میں حافظ ضامن کو شہید کر دیاگیا، رشید احمد گنگوہی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا مگر آواز دب نہ سکی، شیخ الہند کو مالٹا میں قید و بند کی صعوبتیں پیرانا سالی میں جھیلنی پڑیں مگر چراغ نہ بجھا، شیخ العرب و العجم حضرت مولانا حسین احمد مدنی پر عرصہ ِ حیات تنگ کر دیا گیامگر آواز دب نہ سکی،عبید اللہ سندھی کو ملک بدر کر دیا گیا ، محمد علی جوہر کے جسدِ خاکی کو وطن کی مٹی نصیب نہ ہو سکی، احمد علی لاہوری کو لاہور میں لا کر نظر بند کر دیا گیا، عطا اللہ شاہ کی آدھی زندگی جیل کی نظر ہو گئی مگر چراغ نہ بجھا، مولانا حبیب اللہ مختار، مولانامحمد یوسف لدھیانوی، مفتی نظام الدین شامزی، مولانا حق نواز جھنگوی، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی، مولانا عتیق الرحمن، مولانا عبد السمیع، مولانا سعید احمد جلالپوری، مولانا حسن جان، مولانا نور محمد (وانا)، مولاناجمیل احمد ،اور اب مولانا سید محسن شاہ ، مولانا اسلم شیخو پوری اور ان کے علاوہ اَن گنت علماء کی آواز کو دبایا گیا مگر یہ چراغ بجھ نہ سکا۔ ایک جگہ سے آواز دبی تو کسی دوسری جگہ سے بلند ہوئی ۔ قیامت آجائے گی مگر یہ چراغ نہیں بجھے گا کیونکہ رب کریم کا اعلان ہے ؛ ''یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں مگر اللہ کسی صورت میں بھی اپنے نور کو کمال تک پہنچائے بغیر نہیں مانے گا، چاہے یہ کافر لوگ کیسے ہی ناخوش ہوں''(التوبہ)۔
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
مردود شیطان اور اس کے چیلے حیران ہیں کہ یہ کیسی مخلوق ہے جو رام ہو کے نہیں دیتی،اتنی قربانیاں دینے کے باوجود اپنی روش بدلنے کو تیار نہیں، حالات سے سمجھوتا کرنے پر آمادہ نہیں، سامراج کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر راضی نہیں،یہ حرس و حوس کے دلدادہ ، زر کے پجاری اِس جذبے کو کبھی نہیں سمجھ سکتے، اس میدان میں ہرجان دینے والا جاتے ہوئے یہ کہتا جاتا ہے ؛ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا اور
جاں دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اور
یہ وہ نشہ نہیں جو ترشی سے اتر جائے
میں پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں کہ تم مار مار کے تھک جاؤ گے مگر یہ گردنیں کٹا کٹا کر نہیں تھکیں گے کیونکہ عبادالرحمان اور عبادالشیطان کی اس جنگ میں چتِ بھی ان کا ہے اور پٹ بھی ان کا۔ اس جنگ میں زندہ لاکھ کا اورمردہ سوا لاکھ کا ہے ،مردہ تمھاری ظاہری آنکھ دیکھتی ہے جبکہ ایک مسلمان کو اس کے رب نے سختی سے منع کر دیا ''کہ انہیں مردہ نہ کہو یہ زندہ ہیں''(البقرۃ)۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی ایک من چلا پیوند ِ زمیں ہوا، سینکڑوں اور پیدا ہوئے ہیں۔یہ کارواں یوں ہی جانوں کے نذرانے پیش کرتا رہے گا، فریقِ مخالف یوں ہی کفِ افسوس ملتا رہے گا اور "یہ چراغ جلتا رہے گا"۔
Bookmarks