جہاں لڑکیوں کے لئے ایک سبق ہے وہیں والدین کے لئے اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ بعد کے پچھتاوے سے بہتر ہے کہ اپنے بچوں
(خاص طور پر لڑکیوں کی )کی نگرانی کا ذمّہ خود اٹھائیں کہ وہ سارا دن کیا کرتے ہیں ، کہاں جاتے ہیں اور ان کی دوستی کا حلقہ کیسا ہے! ؟
--------------------------------
فائن کہتی ہے:
کچھ عرصہ سے میں اپنے والد کے ڈرائیور کو دیکھتی ہوں کہ وہ مجھ سے خواہ مخواہ گفتگو دراز کرنا چاہتا ہے اور زیادہ بلاتا ہے، مگر میں اس سے ناآشنائی ظاہر کرتی اور اسے اپنی اوقات سے آگے بڑھنے کی گنجائش نہیں دیتی، حالانکہ ہمارا اصل اعتماد اللہ پر تھا یا پھر اس کے بعد ہر چیز میں اس ڈرائیور پر تکیہ تھا۔
مدرسہ آتے جاتے راستہ میں وہ گاڑی قصداً آہستہ چلاتا اور دیر کرتا، میں نے اسے کئی مرتبہ جھاڑ پلائی اور کہا: گاڑی تیز چلائو۔ اس کا آہستہ گاڑی چلانے کے لیے اکثر یہ عذر ہوتا کہ میں تیز رفتاری سے اس لیے گاڑی نہیں چلاتا کہ ٹریفک حادثہ نہ پیش آجائے۔ ایک دفعہ تو اس نے یہاں تک جرأت کی میرا ہاتھ پکڑ لیا، میں نے اس کے ردعمل میں اسے گالی دی اور دھمکی دی کہ میں اپنے باپ کو بتائوں گی، لیکن اس نے ہنس کر مذاق سے یہ بات ٹال دی اور ڈھٹائی سے کہنے لگا: انھیں مجھ پر بہت اعتماد ہے کوئی بات نہیں۔ یہ ہی نہیں بلکہ تمھارے باپ نے مجھے یہاں تک پابند کر رکھا ہے کہ میں تیری سرگرمیوں پر گہری نظر رکھوں اور تمھاری پوری نگرانی کروں۔ا لٹا مجھے دھمکی دی اور ہراساں کیا کہ اگر میں اس کی ہم نوا نہ ہوئی اور اس کی بات نہ مانی تو میں تیرے والد کو بتائوں گا کہ یہ کسی اور نوجوان کے ساتھ گاڑی پر سوار ہوئی ہے، میں نے خود دیکھا ہے اور بھی بہت ساری دیگر باتیں بتائوں گا جو تیری بے راہ روی پر پختہ دلیل ہوں گی۔
اس کے کہنے کے باوجود میں نے ڈرائیور کی نامناسب حرکات والد تک پہنچائیں، مگران کا اس پر عام سا ردعمل تھا، انہوں نے اسے روکنے کے لیے کوئی کارروائی نہ کی۔ مجھے تو یہ توقع تھی کہ میری شکایت سن کر وہ اسے نکال دیں گے اور ڈرائیور بدل لیں گے، مگر انھوں نے بات آئی گئی کردی اور مجھے تنگ کرنے سے اسے نہ روکا۔
اس کے بعد میرے ذہن یہ سوچ آئی کہ میں اپنے بڑے بھائی کو بتائوں، لیکن میں اس سے ڈرتی تھی کہ کوئی برے انجام تک نوبت نہ آ جائے۔ میں جانتی تھی جب میرا بھائی غصے میں آتا ہے تو اس کا رد عمل کیا ہوتا ہے۔ وہ اس کی ہڈیاں توڑ دے گا سچ ہے وہ یہ ہی کرے گا اور اسے مار ڈالے گا۔ ایک میں نے یہ بھی سوچا کہ پڑھائی چھوڑ دوں، پھر میں خود ہی دل سے پوچھتی کہ اس گندے ڈرائیور کی وجہ سے میں اپنی زندگی اور مستقبل تباہ کر دوں، یہ کسی طور مناسب نہیں۔ میں نے یہ کوشش کی کہ میں مدرسے میں اپنی سہیلی کو گاڑی میں ساتھ لے کر جایا کروں گی، جو مجھے لے کر آتی جاتی ہے، لیکن میرے باپ نے یہ منظور نہ کیا اور مجھ سے وعدہ کیا میں قریب ترین فرصت میں ڈرائیور تبدیل کر دوں گا۔
فائن کا قصہ غم تو ہمیں ابتدائی حصہ تک ہی معلوم ہو چکا ہے، اس کی انتہا کا پتا نہیں مگر ہم قارئین کرام سے گزارش کرتے ہیں کہ سوچیں!… فائن دوزخ کے کنارے پر ہے، اس کا قدم پھسل بھی سکتا ہے اگر وہ غلط میدان میں اتر جاتی تو اس سارے خاندان کا انجام کیا ہوتا؟ اور باپ ہتک عزت والا قرار پاتا، کیونکہ اس نے اپنی بیٹی کو چھوڑا اور وہ اکیلی ڈرائیور کے ساتھ جاتی ہے۔
دین اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ بیٹی کے متعلق جو ایک غیرت ہوتی ہے اس کے باپ کی وہ غیرت کہاں گئی؟
اس نے اخلاق کی ابتدائی باتوں کا بھی خیال نہیں رکھا، اس کی اسلامی حمیت کہاں سوگئی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ انسان دین کی ابتدائی سدھارنے والی باتوں سے تب ہی نیچے اترتا ہے جب اس میں جو نقص اور اخلاقی عیب ہوتا ہے وہ اسے دور کرے، جب باپ ہی اپنے ڈرائیور کے ساتھ بیٹی کے معاملہ کے پیش آنے کے باوجود کوئی پریشان نہیں ہوا اور اتنا بڑا سانحہ پیدا ہوا کہ اس نے پروا نہ کی۔ یہ کب پروا کرے گا؟ کیا اس وقت کرے گا جب اس کی بیٹی ڈرائیور کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔ میرے خیال میں ایسا حادثہ ضرور ہو کر رہے گا۔
ایک قدیم شاعر نے کہاہے:
اِذَا کَانَ رَبُّ الْبَیْتِ بِالدُّفِ ضَارِبًا
فَشَیْمَۃُ اَھْلِ الْبَیْتِ کُلِّھِمْ الرَّقْصُ
جب گھر کا مالک گھر میں دف بجائے گا تو دوسرے گھر والے سب کے سب رقص کی عادت بنا لیں گے۔
ڈرائیور کی اس حرکت پر سکوت اور جھکائو اپنے امور اس کے سپرد کر دینا اوران علامات کے واضح ہونے کے باوجود با پ کا بے شرمی و بے حسی اور کمزوری کا مظاہرہ کرنا، کہاں نوبت پہنچائے گا؟ اس میں لازماً باپ کی لغزش شامل ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکل سکتا تھا کہ ڈرائیور اسے کئی مقامات پر شکار کرتا، جہاں خاندان کے سامنے اس کا کمزور پہلو رکھتا اور اس کی حیا مخدوش کر دیتا۔ اس نے خود کو قوت والا ثابت کیا اور باپ کو کمزور سمجھا، وہ اس بات کو مہلت دے رہا ہے اور اس کے اختیارات چھین کر راہ پا رہاہے کہ اپنی ہوس پوری کرے اور اپنی خواہش سے سیراب ہو۔
باپ ناتواں نظر آتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی جو کہ غیرت میں قریب ترین ہوتی ہے، اسے بچانے میں ناکام ہے۔ آہ! یہ المناک حادثہ ہے۔ بلکہ جانکاہ اور تباہ کن المیہ ہے۔ اس باپ نے اگرچہ معاملہ کا تدارک نہیں کیا انجام خواہ کچھ ہو، بہرصورت یہ شیطانی معرکہ آرائی میں ناکام اور خالی ہاتھ ہی نکلے گا۔ دنیا تو اس وجہ سے خسارہ میں ہوگی کہ اس کے بیٹے، اس کی بیوی اور اہل و عیال نے غلط کاری بدکاری کی گندگی سمیٹی ہے۔ آخرت اس لحاظ سے نقصان زدہ ہوگی کہ اپنے رب کی نافرمانی کی۔ یہ دونوں خسارے اس لیے ہوئے کہ ایک بے حیا ڈرائیور باپ کو اس کی ناتوانی پر شکار کرلیتا ہے اور لعین شیطان کے سامنے یہ دیوث باپ بے بس ہے۔
اے نوجوان بیٹی!…
آفتاب کی بلندی پر بنا ہوا عبادت خانہ توڑ دے۔ اس سے پہلے کہ تو اس کے ملبہ کے نیچے دب جائے، اسے گرادے، کوئی طاقت نہیں رکھتا کہ تیرے ہاتھ پکڑے سکے۔ اگر تو ایسا نہ کرے گی تو، پھر ہر ہاتھ تیرے منہ میں زہریلا پتھر پھینکے گا۔ اپنے بھائی کی طرف دوڑ کہ وہ تیرے لیے مضبوط دست و بازو بن جائے، تجھے بچائے اپنے باپ کو چھوڑ دے۔ کمزوری نے اس کی ہڈیاں کھوکھلی کر دی ہیں، اس کے بازو ناتواں ہو چکے ہیں، ڈرائیور ان کے سیاہ و سفید کا فیصلہ کرتا ہے اور ان کے بازو حق کی حمایت سے شل ہو چکے ہیں، خاندانی انحطاط کو بچانے کی قدرت نہیں رکھتے۔ جب تیرا بھائی کچھ نہ کرے گا تو تو حق بجانب ہوگی۔ حق قوی ہوتا ہے، خواہ باتیں ہوں تو اکیلی ہی اپنی عزت نفس کی حفاظت کا بوجھ اٹھالے، اس شیطان مردود سے جو ڈرائیور کے روپ میں نمودار ہوا تھا۔ حتیٰ کہ یہ فریضہ ادا کرتے ہوئے، اپنے دین اور آخرت کی نگہبانی کرتے ہوئے اگر مدرسے کو چھوڑنے (اور جان) کی قربانی بھی دینی پڑے تو کوئی حرج نہیں۔ دنیا و آخرت کی کامرانی اور عزت زیادہ قیمتی ہیں۔
Bookmarks