ہمیں یہی بتایاگیاہے کہ امریکہ کی دریافت مہم جوکرسٹوفر کولمبس نے کی لیکن کولمبس کی پہنچ سے کئی صدیاں قبل ہی مسلمانوں کے باقیات ،مسجدیں ،مدارس وہاں تھے ایسا کولمبس نے بھی تسلیم کیااوراپنی کتاب میں اظہار بھی کیاہے چنانچہ اس نئی دنیا کی دریافت کے وقت بھی مسلمانوں کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔۔یہ تاریخی واقعات اسقدر دلچسپ ہیں کہ ان کے اقتباسات سے گریز کررہاہوں۔۔۔۔۔ ابو شامل کے شکرگزار ہیں جنہوں نےان واقعات کواردو زبان میں یکجا کیا۔
امریکہ کیونکہ فی زمانہ دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی و عسکری قوت ہے جس کا دنیا بھر کے معاملات پر اس اثر و رسوخ ہے اور اس کی اہمیت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اس لیے اس کی تاریخ بھی دنیا بھر کے لیے اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے، قصہ مختصر یہ کہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں امریکہ کا طوطی بول رہا ہے۔ وطن عزیز میں رہنے والا عام چند جماعت پاس شخص بھی، جو اپنی تاریخ سے واجبی سی واقفیت بھی نہیں رکھتا، امریکہ کی دریافت کے حوالے سے سوال پر فوری جواب دے گا “کولمبس!”
تاریخ کا ایک ایسا کردار جس کے کارنامے نے دنیا کی تاریخ پر عظیم اثرات مرتب کیے، جس کا یہ واحد کارنامہ دنیا میں کی بالادستی کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور یورپ نے محض دو صدیوں میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے مسلمانوں کو باہر کر کے اپنی برتری قائم کر لی اور مسلمان ایک طویل نوآبادیاتی دور کے بعد موجودہ جدید ‘ذہنی’ غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لیے گئے۔ اس بات سے قطع نظر کہ امریکہ دریافت کرنا اس کا کارنامہ تھا یا نہیں یہ امر بہرحال تسلیم شدہ ہے کہ اس کا سفرِ امریکہ دنیا کی تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔
“امریکہ کی دریافت” کے حوالے سے کچھ عرصہ قبل مبارک علی صاحب کے ایک مضمون کا ترجمہ کر کے پیش کیا تھا جس پر یہ فرمائش کی گئی کہ امریکہ کی دریافت کے حوالے سے جو دیگر نظریات (خصوصاً مسلمانوں سے متعلق) پائے جاتے ہیں ان کے بارے میں بھی لکھا جانا چاہیے، سو اس موضوع پر کچھ نظریات سامنے لانے کی کوشش کی ہے ، امید ہے یہ حقیر سی کوشش تاریخ کو دوسرے زاویے سے سمجھنے میں کسی حد تک مددگار ثابت ہوگی۔ مقصد صرف زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنا اور پہنچانا ہے، کسی کے نظریے سے کلی اختلاف یا اتفاق کرنا نہیں۔ فی الوقت میرا موضوع امریکہ کی دریافت کے وہ دعوے ہیں جو مسلمانوں سے منسوب ہیں۔
کولمبس کے ہاتھوں امریکہ کی مبینہ دریافت دنیا کی تاریخ کا اتنا اہم واقعہ ہے کہ مورخین اِس سرزمین کی تاریخ کو ہی دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ایک قبل از کولمبس (Pre-Columbus Era)
اور دوسرا بعد از کولمبس
(Post-Columbus Era)
۔ تاریخ انسانی کے اس واقعے کی عظمت کا تقاضا ہے کہ اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ دعوے اور نظریات سامنے آئیں تاکہ حقیقت کا علم ہو سکے اور اس موضوع کا مکمل احاطہ بھی ہو سکے۔
امریکہ دریافت کرنے کے حوالے سے مسلمانوں نے جتنے دعوے کیے ان کا سہرا اندلس، چین اور افریقہ کے مسلمانوں کو سر باندھا گیا ہے۔ اس نظریے کے حامل مورخین کا دعویٰ یہ ہے کہ 9 ویں سے 14 ویں صدی عیسوی تک اندلس اور المغرب (مراکش) کے مسلمان جہاز رانوں نے بحر اوقیانوس میں دور دور تک جہاز رانی کی اور اس دوران انہوں نے امریکی براعظم تک بھی رسائی حاصل کی۔
ان مسلمانوں نے تاریخ میں پہلی بار بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے اس پار نئی دنیا سے رابطے کا آغاز کیا۔ ان دعووں کے حق میں یہ مورخین کئی دلائل بھی پیش کرتے ہیں۔
سب سے پہلے ان دلائل پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو قرون وسطٰی کے مسلمان دانشوروں کی کتابوں میں ملتے ہیں۔ مسلم جہاز رانوں کی امریکہ تک رسائی کا سب سے پہلا حوالہ ہمیں علی المسعودی (871ء تا 957ء) کی “مروج الذہب و معادن الجوہر” میں ملتا ہے جس میں انہوں نے بحر اوقیانوس میں ایک نامعلوم سرزمین کا ذکر کیا ہے اور اتنی کتاب میں اسے “ارض مجہولہ” کا نام دیا ہے۔ انہوں نے اپنی مذکورہ کتاب میں لکھا ہے کہ خلیفہ اندلس عبدالرحمن ثالث کے دور میں ایک مسلم جہاز راں خشخش ابن سعید ابن اسود نے 889ء میں دیلبا (موجودہ پیلوس) سے سفر کا آغاز کیا اور بحر اوقیانوس کے اُس پار ایک “ارض مجہولہ: (نامعلوم سرزمین) پر پہنچے اور انواع و اقسام کے خزانوں کے ساتھ واپس لوٹے۔ المسعودی کے مرتب کردہ دنیا کے نقشے میں افریقہ کے جنوب مغرب میں سمندر میں ایک بہت بڑا قطعہ زمین دکھایا گیا ہے جسے “ارض مجہولہ” کہا گیا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمان براعظم امریکہ کی موجودگی سے کولمبس کی دریافت سے 5 صدی قبل واقف تھے
ایک اور مسلم مورخ ابو بکر ابن عمر الغطیہ کے مطابق فروری 999ء میں اندلس میں اموی حکمران ہشام ثانی کے دور میں غرناطہ سے تعلق رکھنے والے ایک مسلم جہاز راں ابن فرخ کناری جزائر پہنچے اور وہاں سے مغرب کی جانب بحر اوقیانوس میں سفر کا آغاز کیا اور دو ایسے جزائر پر پہنچے جنہیں اب کپراریا اور پلوتانا کہا جاتا ہے۔ وہ مئی 999ء میں غرناطہ واپس پہنچے۔
قبل از کولمبس تاریخ میں مسلمانوں کے “نئی دنیا” سے روابط کے حوالے سے سب سے اہم حوالہ مشہور مسلم جغرافیہ دان اور خرائط ساز محمد الادریسی (1110ء تا 1166ء) کی کتاب “نزہت المشتاق” سے دیا جاتا ہے جس میں انہوں نے بحر اوقیانوس اور “نئی دنیا” کی تلاش کے لیے مسلم جہاز رانوں کی کوششوں کے بارے میں لکھا ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں کہ:
مسلمانوں کے سپہ سالار علی ابن یوسف ابن تاشفین نے اپنے امیر البحر احمد ابن عمر کو بحر اوقیانوس کے مختلف جزائر پر حملے کے لیے بھیجا لیکن وہ اس حکم کی تعمیل سے قبل ہی انتقال کر گئے۔
بحر ظلمات کے اُس پار کیا ہے؟ اس بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ کسی کے پاس اس کا درست علم نہیں کیونکہ اس سمندر کو پار کرنا بہت مشکل ہے۔ اس پر دھند کے گہرے بادل چھائے رہتے ہیں، اس کی لہریں بہت طاقتور ہیں، یہ خطرات سے پُر ہے اور اس میں ہواؤں کے تیز جھکڑ چلتے ہیں۔ بحر ظلمات میں بہت سے جزائر ہیں جن میں سے متعدد غیر آباد ہیں اور دیگر پر سمندر کی لہریں غالب آتی رہتی ہیں۔ کوئی جہاز راں ان میں داخل نہیں ہوتا بلکہ ان کے ساحلوں کے قریب سے ہوتا ہوا گزر جاتا ہے۔
لزبن کے قصبے سے اس مہم کا آغاز کیا گیا جسے “مغررین” کا نام دیا گیا اور وہ بحر ظلمات کے اسرار و رموز سے پردہ اٹھانے کے لیے نکل پڑے، تاکہ یہ جان سکیں کہ اس سمندر کا خاتمہ کہاں ہوتا ہے؟۔ 12 دن کے سفر کے بعد وہ ایک ایسے جزیرے پر پہنچے جو غیر آباد دکھائی دیتا تھا لیکن وہاں زرعی علاقے موجود تھے۔ وہ ان جزائر پر اترے لیکن جلد ہی ایسے افراد کے گھیرے میں آ گئے اور گرفتار کر لیے گئے جن کی جلد کا رنگ سرخ تھا، جسم پر بہت زیادہ بال نہیں تھے اور سر کے بال سیدھے تھے اور قامت بہت بلند تھی۔
ادریسی کا “سرخ رنگت کے حامل افراد” کا حوالہ دینا اس امر کا شاہد سمجھا جاتا ہے کہ یہ قافلہ دراصل ان افراد کی سرزمین پر پہنچا تھا جنہیں کولمبس نے “سرخ ہندی (Red Indians) کا نام دیا تھا۔
ان کے علاوہ افریقہ میں واقع سلطنت مالی کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہاں سے بھی مسلمان جہاز رانوں کا ایک قافلہ بحر ظلمات کو عبور کر کے امریکی سرزمین تک پہنچا تھا۔ اس مہم کا ذکر مسلم مورخ شہاب الدین ابو عباس احمد بن فضل العمری کی کتاب “مسالک الابصار فی ممالیک الامسار” میں ملتا ہے۔
رفتہ رفتہ مسلمانوں کی جانب سے امریکہ کی دریافت کے نظریات اتنی زیادہ اہمیت اختیار کر گئے کہ 1969ء میں ناروے کے ایک مہم جوتھور ہیئرڈیہل
(Thor Heyerdahl)
نے شمالی افریقہ کی بندرگاہ صافی سے بارباڈوس، ویسٹ انڈیز تک کا سفر ایسی کشتی کے ذریعے کیا جسے مقامی افریقی باشندوں نے پیپیرس سے بالکل اس طریق پر تیار کیا تھا جس طرح قرون وسطٰی میں تیار کیا جاتا تھا۔ اس سفر کے ذریعے انہوں نے ثابت کیا کہ قرون وسطٰی میں افریقہ سے نئی دنیا تک سفر ممکن تھا
علاوہ ازیں چینی مسلمانوں کے ہاتھوں امریکہ کی دریافت بھی ایک اہم نظریہ ہے اور اس کا سہرا منگ دور حکومت میں معروف مسلم جہاز راں “ژینگ ہی” کے سر باندھا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ کارنامہ مبینہ طور پر 15 ویں صدی میں کولمبس سے قبل اس دور میں انجام دیا جب چین نے تجارتی راستوں پر اپنے قدم جمانے کے لیے 7 بحری مہمات کا آغاز کیا تھا۔مہم کی قیادت ژینگ ہی کے سپرد کی گئی ۔ ایک یورپی مورخ
Gavin Menzies
نے اپنی متنازع کتاب
1421: The Year China Discovered the World
میں اس کا ذکر کیا ہے۔کیونکہ اس نظریے کے حامی افراد 1421ء کو چینیوں کے ہاتھوں امریکہ کی دریافت کا سال سمجھتے ہیں اس لیے مخالفین اسے 1421 Hypothesis
کہتے ہیں۔
علاوہ ازیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کولمبس نے 1492ء میں جب امریکہ دریافت کیا تو اس کی اس مہم میں کئی مسلمان جہاز راں بھی شامل تھے۔ اور کولمبس کے بیٹے فرنانڈو کولون نے اپنی کتاب تو یہاں تک کہا تھا کہ اسے جینووا کے مسلمان جہاز رانوں نے ہی بتایا تھا کہ وہ مغرب کی جانب سفر کر کے متبادل راستے کے ذریعے ہندوستان پہنچ سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی “دریافت” کے اس تاریخی سفر میں دو ایسے جہاز راں بھی کولمبس کے ہمراہ تھے جن کے اجداد مسلمان تھے۔ ان جہاز رانوں کے نام مارٹن الونسو پنزون
Martin Alonso Pinzon
اور ویسنٹ یانیز پنزون
Vicente Yanex Pinzon
تھے جو بالترتیب PINTA اور NINA جہازوں کے کپتان اور آپس میں بھائی تھے۔ یہ دونوں امیر کبیر اور ماہر کاریگر تھے اور سفر کے دوران انہوں نے پرچم بردار جہاز SANTA MARIA
کی مرمت بھی کی تھی۔ پنزون خاندان کا تعلق مرینی خاندان کے سلطان ابو زیان محمد ثالث (1362ء تا 1366ء) سے تھا۔
کولمبس کا بیٹا فرنانڈو کولون یہ بھی لکھتا ہے کہ پوائنٹ کاویناس کے مشرقی علاقوں میں رہنے والی آبادی سیاہ فام تھی اور اسی علاقے میں ایک مسلم نسل کا قبیلہ “المامی” بھی آباد تھا۔ مینڈینکا اور عربی زبان میں المامی “الامام” یا “الامامو” سے مشتق لگتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مذہبی یا قبائلی یا برادری کی سطح پر اعلٰی حیثیت کے حامل تھے۔
کئی مسلم حوالہ جاتی کتب میں شیخ زین الدین علی بن فضل الماژندرانی کے بحر ظلمات کے سفر کا ذکر ملتا ہے۔ جنہوں نے مرینی خاندان کے چھٹے حکمران ابو یعقوب سیدی یوسف (1286ء تا 1307ء) میں طرفایہ (جنوبی مراکش) سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور تقریباً 1291ء میں بحیرہ کیریبین میں واقع سبز جزیرے (Green Island) پر پہنچے۔ ان کے بحری سفر کی تفصیلات اسلامی حوالہ جات اور کئی مسلم دانشوروں کی کتب میں تاریخی واقعے کی حیثيت سے درج ہیں۔
کولمبس نے 21 اکتوبر 1492ء بروز پیر کیوبا کے شمال مشرقی ساحلوں پر جبارا کے قریب ایک پہاڑ کی چوٹی پر ایک مسجد کی موجودگی کا بھی ذکر کیا ہے۔ علاوہ ازیں کیوبا، میکسیکو، ٹیکساس اور نیواڈا میں مسجدیں اور قرآنی آیات سے مزین میناروں کی باقیات بھی دریافت ہوئی ہیں۔ کولمبس نے ٹرینیڈاڈ میں مقامی باشندوں کی خواتین کے لباس کا ذکر جس طرح کیا ہے اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں مسلمان بھی موجود تھے اور اس کے بیٹے نے تو واضح طور پر لکھا ہے کہ ان کا لباس غرناطہ کی مسلمان خواتین جیسا ہی ہے۔
جدید مصنفین نے بھی اس موضوع پر خاصا کام کیا ہے جن میں بیری فیل، ایوان وان سرتیمی اور الیگزینڈ وان ووتھینو شامل ہیں۔ آخر الذکر جرمن مصنف کا کہنا ہے کہ کولمبس سے پہلے افریقہ، ایشیا اور یورپ سے تعلق رکھنے والے مختلف النسل افراد نئی دنیا میں موجود تھے تاہم انہوں نے مسلمانوں کی بڑی تعداد میں موجودگی کو تسلیم کیا ہے۔
Bookmarks