Source bbcurdu.com
part 1
.................................................. .................................................. ..................
سوات کے شہر مینگورہ میں طالبان کے حملے میں شدید زخمی ہونے والی قومی امن ایوارڈ یافتہ چودہ سالہ طالبہ ملالہ یوسف زئی کے کامیاب آپریشن کے بعد اب ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے۔
صدرِ پاکستان نے انہیں علاج کے لیے بیرونِ ملک بھجوانے کا حکم دیا ہے تاہم ان کی منتقلی کا فیصلہ میڈیکل بورڈ کرے گا۔
ادھر امریکہ اور انسانی حقوق کے عالمی ادروں نے ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کی ہے۔
ملالہ یوسف زئی کو منگل کو مینگورہ میں مسلح حملہ آوروں نے فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا تھا۔گولی ملالہ کے ماتھے میں لگی اور دماغ سےگزر کر گردن کی طرف گئی۔
تحریک طالبان نے ملالہ یوسف زئی پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی ۔طالبان ترجمان احسان اللہ احسان نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ ملالہ یوسف زئی طالبان مخالف تھیں اس لیے انہیں نشانہ بنایا گیا ہے۔
حملے کے بعد ملالہ کو سیدو شریف میں ابتدائی طبی امداد کے بعد ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور لایا گیا اور اس وقت کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں ان کا علاج کیا جا رہا ہے۔
ہسپتال میں ملالہ کے ساتھ موجود ان کے رشتہ دار مبشر حسن نے بی بی سی اردو کو بتایا ہے کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب ان کے دماغ کا آپریشن کیا گیا ہے جو کہ ڈاکٹروں کے مطابق کامیاب رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپریشن کے بعد فی الحال وہ دوا کے زیرِ اثر غنودگی میں ہیں اور ان کی حالت میں بہتری آ رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملالہ کے جسم میں موجودگولی بھی نکال دی گئی ہے
انہوں نے بتایا کہ ملالہ یوسف زئی کو علاج کے لیے بیرون ملک بھجوانے کے بارے میں تاحال ان کے خاندان سے کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔
پاکستانی صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے ملالہ یوسف زئی کو علاج کے لیے بیرون ملک بھجوانے کا حکم دیا ہے جبکہ پی ٹی وی نے وزیرِ داخلہ رحمان ملک کے حوالے سے کہا ہے کہ اس سلسلے میں تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔
ملالہ پر حملے کی مذمت
ملالہ یوسف زئی نے سوات میں طالبان کے وحشیانہ دور کے دوران فرضی نام سے ڈائری لکھ کر مزاحمت کی علامت بن گئی
ملالہ یوسف زئی پر حملے کی عالمی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شدید مذمت کی گئی ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نیولینڈ نے کہا ہے کہ ’ہم ملالہ پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ بچوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنانا بزدلانہ کارروائی ہے۔‘
انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ یہ حملہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں حقوق کی آواز اٹھانے والوں بالخصوص عورتوں اور بچوں کو کن تکلیفوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی ایک اعلیٰ عہدیدار کاملہ حیات نے ملالہ یوسف زئی پر حملے کی مذمت کی اور کہا کہ ملالہ نے اپنے حقوق کے آواز اٹھائی۔ انہوں نے کہا کہ ایسی طاقتیں جو پاکستان کو قرون وسطٰی میں لے جانا چاہتی ہیں، انہوں نے بندوق کے زور سے حق کی آواز دبانے کی کوشش کی ہے۔
پاکستان میں بھی ملالہ یوسف زئی پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے۔
صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ صدر آصف علی زرداری نےکہا ہے کہ ملالہ یوسفزئی پر حملہ انتہا پسندی کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت انتہا پسندی اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پر عزم ہے۔
عمران خان نے سب سے پہلے ٹوئٹر کے ذریعے ملالہ یوسف زئی پر بزدلانہ حملے کی مذمت کی۔ انہوں نے اپنے چار ٹوئٹر پیغاموں میں ملالہ یوسف زئی کے علاج پر ملک اور بیرون ملک اٹھنے والے تمام اخراجات برداشت کرنے کی پیشکش بھی کی۔
عمران خان نے کہا کہ ملالہ یوسف زئی پاکستان کی بہادر بیٹی ہے جس نے جبر کے خلاف آواز اٹھائی۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک اور ٹوئٹر دونوں پر ہی لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس واقعے کی شدید مذمت کر رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ملالہ سے ہمدردی اور محبت کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔
ان کی جلد صحت یابی کے لیے نہ صرف لوگ ان ویب سائٹس پر آ کر دعائیہ پیغامات لکھ رہے ہیں بلکہ لاہور، کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں لوگوں سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ گھروں سے باہر نکلیں اور طالبان اور دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائیں۔
ملالہ یوسفزئی نے سوات میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن سے قبل علاقے کے حالات پر بی بی سی اردو کے لیے ’گل مکئی‘ کے قلمی نام سے ڈائری لکھ کر شہرت حاصل کی تھی۔
بعدازاں حکومتِ پاکستان نے انہیں سوات میں طالبان کے عروج کے دور میں بچوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر نقد انعام اور امن یوارڈ بھی دیا تھا۔ انہیں دو ہزار گیارہ میں ’انٹرنیشنل چلڈرن پیس پرائز‘ کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔
Bookmarks