ذبح ہوتا ہوا قاضی عیاضؒ
قاضی عیاض مالکیؒ اہل علم کے طبقے میں محتاج تعارف نہیں۔ آپؒ کی البیلی کتاب ’’الشفائ‘‘ نے آپ کا تعارف چار دانگ عالم میں کردیا ہے۔ تاہم عام قارئین کے لیے آپؒ کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے ہمارے لیے نافع فرمائے۔ آمین
حضرت قاضی عیاضؒ اندلس کے مشہور عالمِ دین ہیں۔ اپنے وقت میں آپ کے علوم کا طوطی بولتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو گوں ناگوں صفات سے نوازا تھا۔ نحو، ادب، فقہ اور تاریخ میں خاص طور پر یدطولیٰ رکھتے تھے۔
یوں تو آپ نے سو (۱۰۰)کے قریب شیوخ سے استفادہ کیا لیکن خاص طور پر قاضی ابو علی بن سکرہ صدفیؒ سے بہت استفادہ کیا۔ ان کے علاوہ ابوبحر بن عاص، محمد بن حمدین، ابو الحسن سراج صغیر، ابو محمد بن عتاب، ہشام بن احمدؒ سے بھی کسب فیض کیا۔ فقہ میں ابو عبداللہ محمد بن عیسی تمیمی اور قاضی محمد بن عبداللہ سیلیؒ آپ کے خاص اساتذہ ہیں۔
فقیہ محمد بن حمادہ سبتیؒ کا بیان ہے کہ ’’اٹھائیس سال کی عمر میں قاضی عیاضؒ مناظرے کے لیے بیٹھ گئے، پینتیس سال کی عمر میں آپؒ کو قاضی مقرر کیا گیا۔ ایک طویل مدت تک آپؒ قاضی رہے اور بقول خلف بن بشکوال اس میں آپ کا کردار اچھا رہا۔
محمد بن حمادہ سبتیؒ فرماتے ہیں کہ آپؒ کے زمانے میں آپ سے بڑھ کر کوئی مؤلف نہیں ہوسکا (یعنی سبتہ میں) آپ نے الشفائ، ترتیب المدارک، کتاب العقیدۃ، شرح حدیث ام زرع، جامع التاریخ، مشارق الانوار وغیرہ کتابیں تالیف کیں۔ آپؒ کو اپنے علاقے میں وہ شہرت اور بلندی ملی جو کسی اور کو نصیب نہ ہوسکی۔ لیکن اس کے سات ساتھ آپ کی حیثیت اور تواضع میں اضافہ ہی ہوتا رہا اور آپؒ نے دیگر چھوٹی چھوٹی تالیفات بھی کی ہیں جن کو ہم نے ذکر نہیں کیا۔‘‘
آپ کی تالیفات میں سے ’’الشفائ‘‘ علماء کی خاص توجہ کا مرکز بنی۔ متعدد حضرات نے اس کی شرح لکھی، کئی حضرات نے مختصر حواشی لکھے، کئی حضرات کو اس کی تہذیب کی ضرورت محسوس ہوئی اور انہوں نے اس کی تہذیب کی۔
ان کے علاوہ آپؒ نے علامہ مازریؒ کی شرح مسلم کا تکملہ بھی لکھا جس کا نام آپ نے الاکمال فی شرح مسلم رکھا۔ اصولِ حدیث میں بھی آپ نے الالماع نامی کتاب یادگار چھوڑی۔
حق میں مضبوط
انہی فقیہ محمد بن حمادہؒ کا بیان ہے کہ ’’وکان ھینا فی غیر ضعف صلیبا فی الحق‘‘ یعنی آپ نرم خوتھے، لیکن آپ کی یہ نرم خوئی کسی کمزوری کی وجہ سے نہ تھی یا یہ کہ آپ کی یہ نرم خوئی کمزوری کی حد تک نہ تھی۔ آپ حق میں مضبوط تھے۔
حق میں مضبوطی علماء ربانین کی خاص صفت ہے، وہ اس راہ میں کسی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے جان دینی پڑے تو جان بھی دے دیتے ہیں لیکن حق سے کسی بھی قیمت دستبردار نہیں ہوئے۔ اسی راستے پر قاضی عیاضؒ بھی گئے اور اسی راستے میں آپ نے اپنی جان بھی دے دی۔ جس کی تفصیل عنقریب آنے والی ہے۔ انشاء اللہ
آپؒ طویل مدت تک قاضی رہے اور قضاء میں آپ نے کسی کی پرواہ نہیں کی، یہاں تک کہ بادشاہ کے مقربین اور حواشی کو بھی سزائیں دیںجس سے بادشاہ تنگ آگیا اور آپ کو سبتہ سے مراکش بھیج دیا۔ آپ نے وہاں بھی عدل کی مثال قائم کی۔ کئی سال بعد آپ کو دوبارہ سبتہ قاضی مقرر کیا جس سے اہل سبتہ کو بہت خوشی ہوئی۔
علم، تقویٰ، عفت اور حق کے معاملے میں مضبوط ہونے کی وجہ سے آپ کو سبتہ میں بڑی عزت حاصل تھی اور وہاں کے لوگ آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
کمانڈر قاضی عیاض
قاضی عیاضؒ کی زندگی ایک عالم وعابد کی زندگی تھی لیکن جیسے ہی وقت نے آواز دی ’’حی علی الجہاد‘‘ اس پر لبیک کہنے والوں میں سب سے پہلے قاضی عیاض میدان میں کودے، نہ صرف کودے بلکہ جنگ کی قیادت کی۔ اس جنگ سے پہلے اس کے مختصر پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔
مغرب میں علی بن یوسف بن تاشفین کی حکومت تھی، اس کی حکومت کو دولۃ المرابطین کہا جاتا تھا۔ دولۃ المرابطین کے خلاف کچھ سچ کچھ جھوٹ شکایتیں بہت عام ہوگئیں جس کی بناء پر امام غزالیؒ نے اپنے ایک شاگرد محمد بن عبداللہ تو مرت کو اس حکومت کا تختہ الٹنے کا حکم دیا۔ ابن تومرت ایک طویل جدوجہد کے بعد کرسی حکومت تک پہنچ گیا اور کچھ علاقے اس کے زیر نگین آگئے، بعد میں ابن تومرت بدل گیا اور اس نے مہدی منتظر اور معصوم ہونے کا دعویٰ کیا اور عقیدے میں ایک کتاب لکھی جس کا نام ’’المرشدہ‘‘ رکھا، اس میں حق اور باطل کی آمیزش تھی۔ لوگوں کو زبردستی المرشدہ ماننے پر مجبور کیا گیا۔
مفتوحہ علاقوں میں بے تحاشا خون بہایا گیا۔ ابن تومرت کے مرنے کے بعد اس کا شاگرد عبدالمؤمن تخت نشین ہوا، اس نے اس سلسلے کو مزید بڑھایا اور لاکھوں لوگوں کا خون بہایا، وہ جہاں گیا خون بہانے کی داستان چھوڑ گیا۔ متعدد علاقوں کو روندتا ہوا وہ بالآخر قاضی عیاض کے علاقے سبتہ کی طرف متوجہ ہوا۔
قاضی عیاضؒ نے جب بلا کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اس سے نمٹنے کے لیے تیاری شروع کردی۔ مجبوری کی حالت میں ذبح ہونے سے بہتر ہے کہ مردوں کی طرح لڑا جائے۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جس نے سیلاب ظلم کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تو اس کا کچھ بھی باقی نہ بچا اور جس علاقے نے جتنی مزاحمت کی اتنا ہی وہ محفوظ رہا گو وہ مفتوح بھی ہو کیونکہ ظالم جانتے ہیں کہ زخمی شیر کو چھیڑنے سے بازی پلٹ بھی سکتی ہے اور یہ علاقہ ہاتھ سے نکل سکتا ہے اور پھر ہماری باری آسکتی ہے اور جن علاقوں کے بارے میں ظالم کو معلوم ہوجائے کہ:۔
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
تو وہ وہاں بے تحاشا ظلم کرتے ہیں ظلم کے نئے نئے باب رقم کرتے ہیں، آپ تاریخ میں ذرا جھانک کر دیکھئے آپ کو یہی نظر آئے گا۔
قاضی عیاض کی ترغیب سے پورا سبتہ تیار ہوگیا، چند دن شدید مقاومت کے بعد بالآخر سبتہ پر عبدالمؤمن کا قبضہ ہوگیا۔بھر پور مزاحمت کی وجہ سے موحدین (ابن تومرت نے اپنے حامیوں کا نام موحدین رکھا تھا اور اسی سے وہ لوگوں کو دھوکہ دیا کرتے تھے) یہاں زیادہ خون خرابہ نہ کرسکے اور عام معافی کا اعلان کردیا۔
قاضی عیاض کی قدر ومنزلت ان کو معلوم تھی۔ اس لیے اپنے خلاف بغاوت کو ٹھنڈے طریقے سے ٹھنڈا کرنے کے لیے عہدہ قضاء دیدیا اور وہ دیگر علاقوں کی طرف متوجہ ہوگئے، ان علاقوں کی کمزور مزاحمت کی وجہ سے وہاں پھر وہی فساد بازاری شروع کردی اور ہزاروں مسلمانوں کا خون بہایا، یہ دیکھ کر قاضی عیاضؒ نے ایک دفعہ پھر بغاوت کردی۔ ایک دفعہ پھر ایک خون ریز جنگ ہوئی اور سبتہ شدید مزاحمت کے بعد سرنگوں ہوگیا۔ اس دفعہ موحدین نے اپنے مخالفین کو مارا اور ان کے کمانڈر قاضی عیاض کو ایک دور دراز علاقے میں لے گئے تاکہ کچھ وقت گزرنے کے بعد ان کو ٹھکانے لگا سکیں۔ لیکن اب بھی ان کو حضرت قاضی عیاض کی مقبولیت سے سخت خوف تھا، ان کی شہادت کے نتیجے میں اٹھنے والی بغاوت سے نمٹنے کے لیے انہوں نے تین پیشگی اقدامات کیے۔ ایک یہ کہ انہیں سبتہ میں نہ قتل کیا جائے، دوسرا یہ کہ فوری طور پر نہ قتل کیا جائے، تیسرا یہ کہ ان کو ایک دفعہ پھر ایک دور دراز غیر معروف گائوں کا عہدہ قضاء دیدیا۔ یہ اصل میں ان کو مقتل کی طرف لے جانے کی ایک چال تھی۔
قاضی عیاض اور موت آمنے سامنے
بالآخر وہ وقت آپہنچا جس کا موحدین انتظار کررہے تھے۔ قاضی عیاض کو عبدالمؤمن کے سامنے پیش کیا گیا۔ موحدین کا ایک جم غفیر موجود تھا۔ جلاد نیزے لیے کھڑے تھے، تلوار سے گردن اڑائی جاتی ہے اور پلک جھپکنے میں کام تمام ہوجاتا ہے جبکہ نیزے سے تکلیف دینی مقصود ہوتی ہے۔
عبدالمؤمن نے حضرت قاضی عیاضؒ سے کہا کہ تجھے اب بھی معاف کیا جاسکتا ہے بس ایک شرط ہے کہ ابن تومرت کو مہدی اور معصوم مان لو۔ حضرت نے انکار کیا، اس پر آپ کو نیزے مارے گئے، آپؒ اپنے انکار پر برقرار رہے یہاں تک کہ آپ کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ۔ (سیر اعلام النبلائ، تاریخ ابن خلدون، الاستقصاء)۔
Bookmarks