Page 1 of 5 1234 ... LastLast
Results 1 to 12 of 53

Thread: قرآن کی حفاظت کے لیے اللہ کا حیرت انگیز انت

  1. #1
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    40
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default قرآن کی حفاظت کے لیے اللہ کا حیرت انگیز انت

    اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ یہ پہلی وہ آسمانی کتاب ہے، جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا، گویا اس کی حفاظت کے لیے یہ وعدہ الٰہی ہے اور قرآن کا اعلان ہے: (سورة آل عمران:پ۳/۹) اللہ کبھی بھی وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ بس اللہ نے اپنا یہ وعدہ سچ کر دکھایا۔ اور کتاب اللہ کی حفاظت کا حیرت انگیز انتظام کیا۔ اس طور پر کہ اس کے الفاظ بھی محفوظ، اس کے معانی بھی محفوظ، اس کا رسم الخط بھی محفوظ، اس کی عملی صورت بھی محفوظ، اس کی زبان بھی محفوظ، اس کا ماحول بھی محفوظ، جس عظیم ہستی پر اس کا نزول ہوا اس کی سیرت بھی محفوظ، اور اس کے اولین مخاطبین کی سیَر بھی یعنی زندگیاں بھی محفوظ۔ غرضیکہ اللہ رب ا لعزت نے اس کی حفاظت کے لیے جتنے اسباب و وسائل اور طریقے ہوسکتے تھے، سب اختیار کئے، اور یوں یہ مقدس اور پاکیزہ کتاب ہر لحاظ اور ہر جانب سے مکمل محفوظ ہوگئی۔ الحمدللہ آج چودہ سو انتیس سال گذرنے کے بعد بھی اس میں رتی برابر بھی تغیر و تبدل نہ ہوسکا، لاکھ کوششیں کی گئیں، مگر کوئی ایک کوشش بھی کامیاب اور کارگر ثابت نہ ہوسکی، اور نہ قیامت تک ہوسکتی ہے۔ کتاب الٰہی کی، کیسے حفاظت کی گئی؟ ڈاکٹر محمود احمد غازی اپنی کتاب محاضرات حدیث میں تحریر فرماتے ہیں ”کتاب الٰہی کے تحفظ کے لیے اللہ رب العزت نے دس چیزوں کو تحفظ دیا، یہ دس چیزیں وہ ہیں، جو قرآن پاک کے تحفظ کی خاطر محفوظ کی گئی ہیں“۔ وہ کون سی چیزیں ہیں، جو قرآن کے خاطر محفوظ کی گئیں؟ قرآن کی حفاظت کی خاطر نو چیزیں محفوظ کی گئیں: (۱) قرآن کی کا متن یعنی اس کے بعینہ وہ الفاظ جو اللہ رب العزت نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطہ سے یا وحی کے کسی اور طریق سے نبی آخرالزماں ( صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل کئے، آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) پر جب وحی نازل ہوتی، تو آپ فوراً کاتبین وحی میں سے کسی سے کتابت کروالے لیتے، پھر صحابہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبانِ اقدس سے بھی ا±سے سنتے، اور جو تحریر کیا ہوا ہوتا، ا±سے بھی محفوظ کرلیتے، اس طرح ۲۳/سال تک قرآن، نزول کے وقت ہی لکھا جاتا رہا، صحابہ نے اسے حفظ بھی یاد کیا، کیوں کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس کے حفظ کی بڑی فضیلتیں بیان کی۔ ایک روایت کے مطابق صحابہ میں سب سے پہلے حفظِ قرآن مکمل کرنے والے حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ ہیں۔ دورِ نبوی ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد دورِ ابی بکر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ، اور دیگر صحابہ کے کے مشورے سے اس کی تدوین عمل میں آئی، یعنی اس کو یکجا کر لیا گیا اور دورِ عثمانی میں اس کی تنسیخ‘ عمل میں آئی، یعنی اس کے مختلف نسخے بناکر کوفہ، بصرہ، شام، مکہ وغیرہ جہاں جہاں مسلمان آباد تھے بھیج دیے گئے، یہ تو تحریری صورت میں حفاظت کا انتظام ہوا، ا س کے علاوہ اس کو لفظ بلفظ یاد کرنے کا التزام کیا گیا، وہ الگ۔ اس طرح قرآن سینہ و سفینہ دونوں میں مکمل لفظاً محفوظ ہوگیا، اور یہ سلسلہ نسلاً بعد نسلٍ آج بھی جاری ہے، قیامت تک جاری رہے گا، انشاءاللہ، اللہم اجعل القرآن ربیع قلوبنا و جلاءاعیننا. (۲) جہاں اللہ رب العزت نے اس کے متن کی حفاظت کی، وہیں اس کے معنی و مفہوم اور مراد کی حفاظت کا بھی انتظام کیا، اس لیے کہ صرف الفاظ کا محفوظ ہونا کافی نہیں تھا، کیوں کہ مراد اور معنی اگر محفوظ نہ ہو، تو ا س کی تحریف یقینی ہوجاتی ہے، کتب سابقہ کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا، کیوں کہ اس کے الفاظ اگرچہ کچھ نہ کچھ محفوظ رہے، مگر اس کے معانی و مفہوم تو بالکل محفوظ نہ رہے، اس لیے کہ انہوں نے اپنے انبیاءعلیہم السلام کے اقوال و افعال و اعمال کو محفوظ رکھنے کا کوئی انتظام نہ کیا، جس کے نتیجہ میں الفاظ محفوظہ بھی کارگر ثابت نہ ہوسکے، مثلاً عیسائی مذہب ان کا کہنا ہے کہ ہمیں دو اصولوں کی تعلیم دی گئی، اور ہم اس کے علمبردار ہیں: نمبر ایک عدل و انصاف۔ نمبردو محبت و الفت۔ مگر اگر آپ، ان سے دریافت کریں کہ عدل و انصاف کس کو کہتے ہیں، تو وہ اس کا مفہوم نہیں بیان کرسکتے۔ یہی حال محبت کا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس عدل اور محبت کی پرواہ کیے بغیر لاکھوں نہیں، کروڑوں انسانوں کو عیسائیت کے فروغ کی خاطر قتل کر دیا گیا، اور یہ سلسلہ ابھی تک تھما نہیں۔ اسی طرح یہودیت کی اصل بنیاد اس اصول پر ہے،کہ تم اپنے پڑوسی کے لیے وہی پسند کرو،جو اپنے لیے پسند کرو۔ لیکن اگر آپ یہود کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا،کہ انہوں نے اپنے پڑوسیوں کو جتنا ستایا، اتنا دنیا میں کسی نے اپنے پڑوسیوں کو نہیں ستایا ہوگا، اور اب بھی اس کا سلسلہ جاری ہے، جو اسرائیل کی جارحیت سے عیاں ہے، مگر اسلام، الحمد للہ سنت نبوی کے پورے اہتمام کے ساتھ محفوظ رہنے کی وجہ سے، قرآن کی تعلیمات پر مکمل طور پر محفوظ چلا آرہا ہے۔ اس طرح اللہ نے سنتِ رسول جس کو احادیث رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) بھی کہا جاتا ہے، کے ذریعہ معانی و مفاہیم اور مراد الٰہی کو محفوظ رکھنے کا انتظام کیا۔ اس لیے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے قرآن کی جو تفسیر کی، جسے ”تفسیر بالم ثور“کہا جاتا ہے، جس پر امام سیوطی، امام ابن کثیر وغیرہ، بے شمار علماءنے تفسیر یں لکھیں، اور ہر آیت کی تفسیر، حدیث رسول سے کرکے دکھائی، وہ درحقیت اللہ ہی کی جانب سے ہے، کیوں کہ قرآن نے اعلان کیا ہے ”ان علینا بیانہ“ ( سورة القیٰمة: پ۲۹/۱۹)
    Last edited by imran sdk; 16th February 2009 at 02:01 PM. Reason: UNCOPLET

  2. #2
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    40
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default Allah Kaa Intazam

    یعنی اس قرآن کی تفسیر بھی ہم نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔ا یک جگہ پر”جمعہ وقرآنہ“ ہے، ایک جگہ ارشاد ہے ”وما ینطق عن الہویٰ ان ہو الا وحی یوحی“ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کوئی بات اپنے جی سے نہیں کرتے، بلکہ وحی خدا وندی ہی ہوتی ہے۔ اسی کو کسی فارسی شاعر نے کہا: گفتہ او گفتہ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود اس پوری گفتگو سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ ”تفسیر بالم ثور“ درحقیقت اللہ ہی کی، کی ہوئی تفسیر ہے، اور ظاہر ہے اللہ ہی اپنی مراد کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ لہٰذا حدیث کی حفاظت سے معانی و مراد خداوندی بھی محفوظ ہوگئے؛ اللہ ہمیں کتاب اللہ اور سنت رسول پر مرمٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! (۳) قرآن کے الفاظ و معانی کے ساتھ ساتھ، وہ جس زبان میں نازل ہوا،وہ زبان یعنی عربی زبان بھی محفوظ۔ اس کے لیے بھی اللہ نے عجیب انتظام کیا، اس طور پر کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ”احبوا العرب لثلاث انی عربی، ولسان ہل الجنة عربی، والقرآن عربی“ قرآن نے خود اعلان کیا ”بلسان عربی مبین“ ( سورة الشعرائ : پ۱۹/۱۵۹)ہم نے قرآن کو صاف ستھری عر بی زبان میں نازل کیا۔اگر آپ لسانیات کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا دنیا کی کوئی زبان تین چار سو سال سے زیادہ محفوظ نہ رہ سکی، یا تو وہ ختم ہوگئی یا کسی دوسری زبان میں ضم ہوگئی، یا ایسے تغیر و تبدل کی شکار ہوگئی کہ اس کی پہلی ہیئت باقی نہ رہ سکی، مگر عربی زبان مسلمانوں کی توجہ و عنایت کا ایسا شہکار ہے، جو بیان سے باہر ہے؛ اولاً خود نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی تربیت میں عربی زبان کی نوک و پلک کی درستگی کو خوب اہمیت دی، آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے بھی، اپنی توجہ کو اس پر مبذول کیا، جیسا کہ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ، حضرترضی اللہ تعالی عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے ، یہاں تک کہ حضر ت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ تعالی عنہ نے تو نحو عربی و صرف عربی کی بنیاد ڈال کر، اسے خاص توجہ کا مرکز بنایا، اور پھر آپ کے بعد ا±مت کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا، جس نے اپنی زندگیاں اسی زبان کی حفاظت و ترویج میں وقف کردی، ابوالاسود الد±ویلی ،امام سیبویہ، اما م خلیل فراہیدی، امام کسائی، امام فراء، امام مبرد، امام اخفش، امام یعصم، امام تغلب، امام ثعلب، امام یشکر، امام ابن حاجب، امام ابن ہشام، امام ابن عقیل، امام ابن جنی، امام نفطویہ، امام زازویہ، امام خالویہ، امام راہویہ وغیرہ نے اپنی پوری زندگیاں صرف و نحو ، علمِ بیان وغیرہ کی حفاظت کے لیے وقف کردیں، جس کی برکت سے آج بھی عربی زبان اسی اصل ہیئت پر باقی ہے، جس ہیئت پر وہ نزول قرآن کے وقت تھی، اور قیامت کے وقوع سے پہلے پہلے تک جب تک اس قرآن کو باقی رکھنے کی اللہ کی مشیت ہوگی، امت کی ایک جماعت اس کارِخیر میں مشغول رہے گی، انشاءاللہ۔ (۴) صرف الفاظ و معانی اور قرآنی زبان ہی کی حفاظت پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا، بل کہ اس کے الفاظ و معانی کی عملی صورت کی حفاظت کا بھی پورے پورے انتظام کیا گیا، اس طور پر کہ قرآن جس لفظ میں نازل ہوتا، نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم) اس کی مراد و حی کی روشنی میں صحابہ کو سمجھاتے، اور سمجھانے کے بعد اسکو عملاً بطور نمونہ، کرکے بھی بتلاتے تھے، جسکو آج کی زبان میں تھیوری (Theory)کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل (Practical)کا بھی اہتمام کیا جاتا، مثلاً نماز، قرآن نے صرف یہ الفاظ کہے ”اقیموا الصلوة“ (سورة البقرة: ۱/۴۳) نماز قائم کرو، مگر پورے قرآن میں کہیں اس کی پوری تفصیل بالترتیب نہیں بتائی گئی، ہاں کہیں قیام، کہیں رکوع، کہیں سجود کو متفرق طور پر بیان کیا گیا، جب کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس کا طریقہ بالترتیب صحابہ کو بتایا، اور پھر اس کو عملی طور پر کرکے دکھایا اور کہا نماز ایسی ہی پڑھو جیسی مجھ کو پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ صحابہ نے ایسا ہی کیا، پھر رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد صحابہ نے بھی بدستور اس پر عمل جاری رکھا، اور تابعین بھی انہیں جیسا کرتے رہے ، گویا انہوں نے بھی ہوبہو ایسا ہی کیا، اس کے بعد تبعِ تابعین، اس طرح آج تک نسلاً بعد نسلٍ اور قرناً بعد قرنِ امت کا اس پر تعامل، اس طرح عملی صورت بھی محفوظ ہوگئی، یہ تو ایک مثال ہے، ورنہ صلوہ العید، صلوة الجنازة، زکوٰة، صدقہ، قربانی، تلاوت قرآن وغیرہ سب کی عملی صورت آج تک امت کے ذریعہ اللہ رب العزت نے محفوظ رکھی، اسی لیے جب کوئی قرآن کی تفسیر و تشریح میں من مانی کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو ا±مت میں اس کو تلقی بالقبول (مقبولیت) حاصل نہیں ہوتا، البتہ کچھ افراد جو مفادپرست ہو یا ان کی اسلامی تربیت نہ ہوئی ہو، یا ضروری علم دین سے واقف نہ ہو، اس کے تابع ہو جاتے ہیں، اور ایسا تو دنیا میں ہوتا ہی ہے، عربی میں محاورہ مشہور ہے ”لکل ساقطة لاقطة“ ہرگری پڑی چیز کا کوئی نہ کوئی اٹھانے والا ہوتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ قرآن کے مفاہیم و مرادوں کو بھی اللہ رب العزت نے تعامل کے ذریعہ محفوظ رکھا، یقینا دنیا کی کوئی طاقت اللہ کی مشیت کے لیے رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ واللہ غالب علی امرہ و لکن اکثر الناس لایعلمون(سورة یوسف

  3. #3
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    40
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default Allah Kaa Intazam

    ۱۲/۲۱)۔ (۵) میرے عزیزو! قربان جائیے اس رب کائنات پر ،جس نے اپنی کتاب کی حفاظت کے لیے ایسے ایسے انتظام کیے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، اور انسان اس کی کرشمہ سازیوں پر سر دھندتا رہ جاتا ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جس ماحول میں قرآن کا نزول ہوا، جس سیاق و سباق میں آیتیں نازل ہوئی، اس ماحول کو بھی تحفظ اور دوام بخشا گیا، حدیث کے ذخیرے نے وہ پورا ماحول اس کی منظر کشی اور نقشہ کشی ہمارے سامنے رکھ دی، جب طالب حدیث اس کو پڑھتا ہے، تو اس کے سامنے چشم تصور میں وہ سارا منظر متشکل ہو کر آجاتا ہے، جس منظر میں قرآن کریم نازل ہوا، جس پس منظر اور پیش منظر میں، قرآن مقدس کے احکام و ہدایات پر صحابہ? کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے، صاحبِ وحی رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی حاضری اور موجودگی میں عمل درآمد شروع کیا، جس کو علم حدیث میں ”حدیثِ مسلسل“ کہا جاتا ہے، اس کی صورت یہ ہوئی کہ راوی نے، حدیث کو جب نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے سنا، یا دیکھا، تو اس وقت جو کیفیت تھی، راوی جس سے روایت بیان کرتا ہے، اس کے سامنے وہی انداز و اسلوب اختیار کرتا ہے، جس انداز سے اس نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے اس حدیث کو اخذ کیا ہو، اور وہ پوری کیفیت بعینہ کرکے دکھاتا ہے، جو نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے صادر ہوئی ہو، مثلاً ”حدیث مسلسل بالتشبیک“ اس کاو اقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو گناہ اور توبہ کے وقت ایمان کی کیفیت کو بیان کیا، کہ اگر بندہ گناہ کرتا ہے، تو ایمان اس کے دل سے نکل جاتا ہے، اور جب توبہ کرتا ہے تو وہ دوبارہ دل میں داخل ہو جاتا ہے، اور آپ نے اپنی انگلیوں کو پروکر علیحدہ کیا اور کہا ایمان گناہ کے وقت اس طرح نکل جاتا ہے، ا ور جب توبہ کرے تو دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر پروکر (جس کو تشبیک الاصابع کہتے ہیں) بتایا، پھر اس صحابی نے بھی اس روایت کو بیان کرکے، اسی طرح کرکے بتایا، اس طرح یہ سلسلہ آج تک چلا آرہا ہے بظاہر ایسا کرنے سے کوئی فائدہ سمجھ میں نہیں آتا، اگر نہ بھی کیا جاتا تو بات سمجھ میں آجائی گی، مگر اس کا ایک اضافی فائدہ یہ ہوتا ہے، کہ نفسیاتی اور جذباتی طور پر انسان اس ماحول میں چلا جاتا ہے، جس ماحول میں رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) اس بات کو بیان فرمارہے تھے، مسجد نبوی میں یا جس مقام پر حضور اقدس ( صلی اللہ علیہ وسلم) اس کو بیان فرمارہے تھے، تو روحانی طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں وہاں موجود ہوں، اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے اس عمل کو صحابہ، تابعین اور تبع تابعین اور حدیث کے اساتذہ اور طلبہ کے ذریعے دیکھتا چلا آرہا ہوں، بالکل اسی طرح کی کیفیت ”اسباب نزول آیات“ کے بولتے اور سنتے وقت ہوتی ہے۔ سبب نزول کہتے ہیں، حدیث میں وارد، ا±ن واقعات کو جوکسی آیت کے نزول کے وقت پیش آیا ہو، اس سے قرآن فہمی میں بڑی مدد ملتی ہے، کیوں کہ جب آیت کا سبب نزول معلوم ہو جائے، تو اس پرمرتب احکام کا درجہ بھی معلوم ہو جاتا ہے، اگرچہ یہ ضروری بھی نہیں قرار کیا گیا، کہ ہر آیت کا سبب نزول ہو، مستقلاً علماءنے اس پر تصانیف چھوڑی، مثلاً امام جلال الدین سیوطی، امام واحدی وغیرہ نے۔ (۶) قرآن کریم کی حفاظت کی غرض سے جہاں بہت ساری چیزوں کو تحفظ بخشا گیا، وہیں سیرت نبوی یعنی نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی زندگی کے حالات کو بھی محفوظ کیا۔ کیوں کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے قرآنی مطالبات پر عمل کرکے بتایا تاکہ کل آکر کوئی ایسا نہ کہے ہم قرآنی مطالبات پر عمل نہیں کرسکتے، یہ تو بڑے شاق اور دشوار گذار ہیں، تو بطور نمونہ کے آپ نے عمل کرکے بتلایا اور عمل بھی ایسا، جیسا اس پر عمل کرنے کا حق ہے، اسی لیے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ سے، حضور اقدس ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے اخلاق کے بارے میں جب دریافت کیا گیا، تو آپ رض? الل? تعال? عن?ا نے کہا کہ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ کہاں ہاں۔ تو آپ نے فرمایا ”کان خلقہ القرآن“ آپ قرآن کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔ جہاں کوئی امر نازل ہوا، فوراً عمل کرکے بتایا، اسی لیے قرآن نے اعلان کر دیا ”لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة“ (سورة الاحزاب:پ۲۱،آیت۲۱)آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی زندگی، اے مسلمانو! تمہارے لیے نمونہ ہے، دنیا میں کسی ہستی کی سیرت و حیات پر اتنا کام نہیں ہوا جتنا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی حیات مبارکہ پر ہوا، اور ہوتا چلا جارہا ہے، آج بھی اس کی افادیت میں کوئی کمی محسوس نہیں ہورہی ہے، بل کہ مزید اس کی افادیت میں اضافہ ہو رہا ہے، اللہم اجعلنا ممن یتبع الرسول و یطیعہ. (۷) نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات اقدس کو اللہ رب العزت نے اپنی آخری کتاب قرآن کے نزول کے لیے منتخب کیا اور آپ کے لیے آخری دین، دین اسلام کو تجویز کیا، قرآن کی حقانیت کوباقی رکھنے کے لیے اس کے تقدس و علو مرتبت کو ثابت کرنے کے لیے صاحب قرآن کی عظمت اور تقدس کو باقی رکھنا بھی امرِ ناگزیر تھا، اللہ رب العزت نے اس کے لیے جو حیرت انگیز اور تعجب خیز انتظام فرمایا، اسی میں سے ایک یہ کہ آپ کے نسب مبارک کو بھی مکمل محفوظ کیا گیا، عرب جو امی ، اَن پڑھ تھے، مگر اس کے باوجود اقوام عالم میں ان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ اپنے انساب کے یاد رکھنے کا بڑا اہتمام کرتے تھے یہی اہتمام بعد میں چل کر ایک فن کی حیثیت اختیار کر گیا، اور اس پر کتابیں بھی لکھی گئیں، مثلاً الانساب للامام السمعانی وغیرہ، علم الانساب کہتے ہیں اس ریکارڈ کو جس میں یہ محفوظ کیا جائے کہ کون سا قبیلہ کہاں سے وجود میں آیا، کس قبیلے کے کس آدمی کا باپ کون اس کا دادا کون، اسی طرح اوپر تک اس کی شادی کہاں ہوئی، اس کی اولاد کتنی تھی، عربی قبائل میں کس قبیلے کی کس قبیلے کے ساتھ رشتہ داری تھی وغیرہ۔ اب کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ عربوں کو ان موضوعات سے دلچسپی رہی ہوگی، یا انہیں اس طرح کی معلومات کے جمع کرنے کا شوق رہا ہوگا، لیکن بات اتنی کہنے سے نہیں ٹلتی، ڈاکٹر محمود احمد غازی ایک حیرت انگیز بات کا انکشاف کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ” جب ہم انساب کی کتابوں کا جائزہ لیتے ہیں، اور ان کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ایک عجیب و غریب بات سامنے آتی ہے، بہت عجیب وغریب، اتنی عجیب و غریب، کہ اس کو محض اتفاق نہیں کہا جاسکتا، وہ عجیب و غریب بات یہ سامنے آتی ہے کہ جتنی معلومات محفوظ ہوئیں، وہ مرکوز ہیں رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی شخصیت پر حالاں کہ جس وقت انساب کی حفاظت کا کام شروع ہوا، اس وقت تو حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم) پیدا بھی نہیں ہوئے تھے“۔ مگر اللہ کو منظور تھا کہ آپ کا نسب مکمل محفوظ اور منسلک رہے تاکہ آپ کے آباءو اجداد کی علو شان، ان کی پاکبازی سے آپ کی خاندانی شرافت اور کرامت کا ثبوت فراہم ہو، اور یوں صاحب قرآن کی شان بھی قرآن کے شایان شان ہونے کا ثبوت مہیا ہو جائے، اور کسی بھی ذی ہوش و خرد مند کے لیے آپ کی تکذیب کا سوال باقی نہ رہے، اور آپ کی تصدیق دل و جان سے قبول کرلے، ہاں مگر یہ کہ اس میں حسد و عناد، شرکشی و شرارت ہو، اس طرح قرآن کی حفاظت اس کے وقار اور اس کی حقانیت کے ثبوت کے لیے اللہ رب العزت نے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے نسب مبارک کو محفوظ کرلیا، واللّٰہ علی کل شءقدیر. (سورة البقرة:پ۱،آیت۱۰۶) واللّٰہ غالب علی امرہ و لکن اکثر الناس لایعلمون.(سورة یوسف:پ۱۲،آیت۲۱) (۸) قرآن کے نزول کے وقت اس کے اولین مخاطب اور اس کے اولین حاملین حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین جو براہِ راست مخاطب تھے، قرآن کی حفاظت کے لیے اللہ نے ایک انتظام اور بندوبست یہ بھی کیا کہ حضرات صحابہ کرام رضوان الل? تعال? عل??م اجمع?ن کے حالات کو محفوظ کروالیا، ایک اندازے کے مطابق صحابہ کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز تھی، مگر ان میں سے اکثریت آخری دور میں قبولیت اسلام سے شرف یاب ہوئی، اس اولین حاملین، جنہیں قدیم الاسلام یا اولین مو?منین کہا جاتا ہے، ان کی تعداد کم و بیش پندرہ بیس ہزار رہی ہوگی، اور جن صحابہ نے آپ سے زیادہ کسبِ فیض کیا، ان کے حالات کو بھی اللہ نے محفوظ کرلیا، تاکہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ ساتھ ان کے حالات کا علم ہو جائے اور انہوں نے ایمانی تقاضوں اور اسلامی مطالبات کو، جس حسن و خوبی کے ساتھ عملی جامہ پہنایا، اس کی معرفت بھی حاصل ہو جائے تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے، محمد عربی ( صلی اللہ علیہ وسلم) تو رسول تھے، ان کے ساتھ اللہ کی خاص عنایت و رحمت تھی، انہوں نے اگر عمل کیا، یہ ان کی امتیازی شان تھی، مگر جب صحابہ کی زندگیاں بھی اسی نقش قدم پر پائی، تو معلوم ہو جاتا کہ ایسا نہیں اگر انسان ارادہ کرلے، تو مکمل ایمانی تقاضوں کو پورا کرسکتا ہے، جیسا کہ صحابہ نے پورا کیا، اسی لیے قرآن نے کہا ”امنوا کما آمن الناس“ ایمان لاو? صحابہ جیسا ایمان لائے۔ اس میں الناس پرالف لام عہدِ خارجی کا ہے، یعنی حضرات صحابہ۔ صحابہ کے حالات میں ایک عجیب پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ جو صحابہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے جتنا قریب تھے، ان کے حالات اتنے ہی زیادہ تفصیل کے ساتھ ملتے ہیں، صحابہ کے حالات کی حفاظت کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ صاحب قرآن کے اصحاب و احباب کا جب علم ہو تو اس سے آپ کے محبِ خیر بل کہ سراپا خیر ہونے کا اندازہ ہو، کیوں کہ آدمی اپنے دوستوں سے جانا جاتا ہے، حدیث شریف میں ”فانظر الی من یخالل“ کہ جب تم کسی کے بارے میں جاننا چاہو تو دیکھو کہ وہ کیسے لوگوں کے ساتھ رہتا ہے، تو اس سے معلوم ہو جائے گا کہ یہ کیسا ہے، انسانی تاریخ میں حضرات انبیاءکرام کے بعد اگر کوئی مقدس اور بہترین گروہ ہے تو وہ گروہِ صحابہ ہے، لہٰذا قرآن اور صاحب قرآن کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا بھی ضروری تھا کہ قرآن پر اجتماعی عمل کیسے ہو؟ سنت اور قرآن کی اجتماعی تشکیل کس طرح ہوں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں امت نے کیسے جنم لیا؟ اور ان سوالات کے جوابات مکمل نہیں ہو سکتے تھے، مگر صحابہ کے احوال کے جانے بغیر، لہٰذا اللہ نے انتظام کیا، اور اولین حاملین قرآن اور اولین عاملین میں سے تقریباً پندرہ ہزار نفوس قدسیہ کے حالات نام بہ نام نسل بہ نسل دستیاب ہیں، اور الحمد للہ امت تب سے لے کر اب تک اور قیامت تک ان کے نقوش و خطوط سے استفادہ کرتی رہے گی، اور قرآن پر عمل کرنے کے لیے اسے معاون سمجھتی رہے گی، و اللہ لطیف بالعباد۔ (۹) اب جب صحابہ جو قرآن کے الفاظ و معانی کے ساتھ ساتھ اس پر انفرادی و اجتماعی طور پر عمل کرنے والے اور دنیا کو یہ بتانے والے ٹھہرے کہ قرآن قابل عمل ہی نہیں دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی کا ضامن ہے، تو ان کے حالات کے جاننے کے لیے، ان کے اصحاب جن کو تابعین کہا جاتا ہے، کے حالات کا قلمبند ہونا بھی ضروری تھا، تاکہ صحابہ کے حالات ہم تک یعنی ان کے بعد والوں تک صحیح طور پر پہنچے، تو اس کے لیے، ان تابعین وتبعِ تابعین کے احوال کا تحفظ بھی ضروری تھا، کرشمہ الٰہی دیکھئے کہ ایسے چھ لاکھ افراد کے بارے میں پورا بایوڈاٹا یعنی مکمل معلومات کو بھی اللہ نے تحفظ بخشا اور وہ بھی سرسری نہیں بلکہ ان کی پوری تفصیلات کے ساتھ، کہ یہ کون تھے؟ کس زمانہ میں پیدا ہوئے؟ ان کی شخصیت کس درجہ کی تھی؟ ان کا علم وفضل کس درجہ کا تھا؟ انہوں نے کس کس سے کسبِ فیض کیا؟ ان کا حافظہ کیسا تھا؟ ان میں کیا اچھائیاں تھیں وغیرہ۔ غرضیکہ اس طور پر منقی و مصفی کرکے سامنے رکھ دیا گیا ہے، کہ آدمی ان کی شخصیت سے اطمینان بخش حد تک معلومات حاصل کرلے۔ اس کو فن ”اسماءرجال“ سے تعبیر کیا گیا۔ اور ڈاکٹر محمود احمد غازی فرماتے ہیں کہ یہ ایسا فن ہے کہ اس کی مثال دنیا کے کسی مذہبی و غیر مذہبی فن میں نہیں ملتی، نہ مذہبی علوم میں اس کی مثال اور نہ غیر مذہبی علوم میں۔ خلاصہ کلام یہ کہ وہ چیزیں ہیں، جس کو قرآن کی حفاظت کی خاطر اللہ رب العزت نے حیرت انگیز انداز میں تحفظ بخشا، اوراپنے کامل قدرت کا مظاہرہ کیا، اللہ ہمیں قرآن کی قدردانی کی توفیق عطافرمائے اور ہمارے ظاہر وباطن کو قرآن کے منشاءکے مطابق بنادے۔ آمین یا رب العالمین!

  4. #4
    Join Date
    17 Nov 2007
    Location
    Ali Hassan SIALKOT Praim Nager
    Age
    35
    Posts
    4,535
    Threads
    93
    Thanked
    12

    Default

    Subhaan Nalah

  5. #5
    meharge's Avatar
    meharge is offline Senior Member+
    Last Online
    11th February 2015 @ 11:37 PM
    Join Date
    30 Jan 2009
    Location
    الدوحة - قطر
    Age
    46
    Gender
    Male
    Posts
    870
    Threads
    65
    Credits
    997
    Thanked
    23

    Default

    ماشأالله
    آئی ٹی دنیامیں سیگنیچرز میں اتنے بڑے سائز کی امیج لگانا سختی کے ساتھ منع ہے۔۔۔آئی ٹی دنیا ٹیم

  6. #6
    MOHAMMEDIMRAN's Avatar
    MOHAMMEDIMRAN is offline Senior Member+
    Last Online
    17th September 2016 @ 11:52 AM
    Join Date
    19 Dec 2008
    Posts
    2,722
    Threads
    161
    Credits
    1,056
    Thanked
    313

    Default

    Masha'allah...

  7. #7
    imran sdk's Avatar
    imran sdk is offline Advance Member
    Last Online
    20th October 2021 @ 04:14 AM
    Join Date
    16 May 2007
    Location
    پا&
    Age
    40
    Posts
    1,810
    Threads
    1129
    Credits
    1,369
    Thanked
    43

    Default

    pasnand karnin ka shukriaaaa

  8. #8
    shami 2 is offline Senior Member+
    Last Online
    28th October 2011 @ 02:31 AM
    Join Date
    23 Apr 2009
    Location
    sialkot
    Gender
    Male
    Posts
    163
    Threads
    17
    Credits
    975
    Thanked
    4

    Default

    mashallah subhanallh

  9. #9
    faraz101's Avatar
    faraz101 is offline Senior Member+
    Last Online
    20th August 2020 @ 11:06 AM
    Join Date
    03 Oct 2008
    Location
    mujhe khud nahin pata
    Age
    40
    Gender
    Male
    Posts
    1,318
    Threads
    48
    Credits
    1,198
    Thanked
    96

    Default

    ALLAH aap ko aur toufeeq de.bohot zabardast

  10. #10
    brave99's Avatar
    brave99 is offline Senior Member+
    Last Online
    28th February 2013 @ 08:51 PM
    Join Date
    28 Feb 2009
    Location
    Bhakkar
    Age
    31
    Posts
    710
    Threads
    88
    Credits
    925
    Thanked: 1

    Default

    Jzak Allah

  11. #11
    ayazpk79's Avatar
    ayazpk79 is offline Senior Member+
    Last Online
    10th February 2014 @ 08:08 PM
    Join Date
    31 Mar 2009
    Age
    45
    Posts
    163
    Threads
    16
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default

    ashallah, bohat khoob, good working, Jazakallah khair

  12. #12
    oralover2006 is offline Member
    Last Online
    19th July 2018 @ 09:12 AM
    Join Date
    22 Jan 2009
    Age
    48
    Posts
    327
    Threads
    53
    Thanked: 1

    Default

    Masha-Allah, Subhan-Allah

    Jazak-Allah-o-Khair

Page 1 of 5 1234 ... LastLast

Similar Threads

  1. Replies: 0
    Last Post: 7th March 2011, 01:05 AM
  2. Replies: 5
    Last Post: 19th March 2010, 12:25 PM
  3. Replies: 10
    Last Post: 28th March 2009, 01:23 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •