ایک پڑھی لکھی معزز خاتون جنھوں نے حقوق میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ھے اس مسئلے پر اظھار رائے کرتے ھوئے واضح الفاظ میں تحریر کرتی ھیں : کوئی بھی عورت چاھے وہ پھلی بیوی ھو یا دوسری یا کوئی اور ” تعدد ازواج “ سے اس کو کوئی نقصان نھیں ھوتا ! بلکہ طے شدہ بات یہ ھے کہ اس قانون سے مردوں کو ضرر پھونچتا ھے کیونکہ ان کا بوجہ بڑہ جاتا ھے ان کی تکلیف زیادہ ھو جاتی ھے اس لئے کہ جب کوئی مرد کسی عورت سے شادی کرے گا تو شرعاً، اخلاقاً، قانوناً اور عرفاً اس عورت کا ذمہ دار ھو گا اور آخر عمر تک اس عورت کے شایان شان وسائل زندگی مھیا کرنا مرد کا فریضہ ھو گا
۔ اسی طرح عورت کے صحت کی ذمہ داری بھی اس پر ھو گی یعنی بیماری کی صورت میں علاج معالجہ کرانااور اس کے مصارف برداشت کرنا ھوں گے اور خطرات سے بچانا بھی اس کا فریضہ ھو گا ۔ !
اگر مردان چیزوں میں کوتاھی کرتا ھے تو عرف اس کو فرائض کی انجام دھی پر مجبور کرے گا اس خاتون کے عقیدے کے لحاظ سے تعدد ازواج کے سلسلے میں نادانستہ جتنے اعتراض عورتوں کی زبان سے ھوتے ھیں یہ در حقیقت مردوں کے اعتراض ھیں جو عورتوں کی زبان سے ھوتے ھیں ۔ عورتیں طوطی کی طرح رٹ کر ھر جگہ اس راگ کو الاپتی رھتی ھیں ( گویا یہ عورتوں کی بے وقوفی اور مردوں کی عقل مندی ھے ) کیونکہ در حقیقت مرد مختلف شبھات پیدا کر کے شادی سے روکتے ھیں کیونکہ اس قانون سے انھیںکو نقصان ھے عورتوں کو کوئی نقصان نھیںھے اور مرد یہ چاھتا ھے کہ قانونی پابندی سے بچ کر اپنی جنسی خواھش پوری کرتا رھے مگر نادان عورت اس بات کو نھیں سمجہ پاتی ۔ اگر کسی مرد کی دو بیویاں ھیں تو جنسی تعلق سے عورت کو کوئی نقصان نھیں ھے بس روحانی طور پر عورت کو یہ احساس ھوتا ھے کہ میرے شوھر کی دوسری بیوی بھی ھے لیکن یہ روحانی تکلیف بھی حقیقی چیز نھیں ھے بلکہ مردوں کی سمجھائی ھوئی بات ھے اور اس کی دلیل یہ ھے زمانھ سٔابق میںلوگوں کی کئی بیویاں ھوتی تھی اب بھی ایسی مثالیں مل جائیں گی کہ ایک ھر میں دو تین بیویاں مل کر زندگی بسر کرتی ھیں اور کسی کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نھیں ھے لیکن مردوں کے بھکائے میں آکر اب ان کو بھی تکلیف کا احساس ھونے لگا ھے اگر واقعاً دوسری بیوی باعث تکلیف ھوتی تو پھلے زمانے میں یہ احساس کیوں نھیں تھا ؟
اب آپ سمجھئے کہ مغرب نے جنسی بے راہ روی توجائزقرار دے دی لیکن فطری خواھش( شوھر و اولاد ) پر پابندی لگا دی لیکن اسلام لوگوں کو معقول آزادی دیتا ھے اور ایسی آزادی جو مصالح فرد یا اجتماع کے لئے نقصان دہ ھو، اس کی کسی قیمت پر اجازت نھیں دیتا ۔
چونکہ اسلام کی نظر میں عدل و انصاف، فرد و اجتماع کی سعادت کا اھم جزو ھے اسی لئے ” تعدد ازواج “ میں بھی اسلام نے عدالت کی شرط رکھی ھے اور مختلف امور میں عورتوں کے ساتھ کیسی عدالت برتی جائے اس سلسلے میں فقہ اسلامی کے اندر بھت زیادہ دستور بتائے گئے ھیں اور عورتوں کی آزادی و برابر ی کے حقوق وغیرہ کی بھت عمدہ طریقے سے ضمانت دی گئی ھے ۔
بھت سی ایسی عورتیں بھی ھیں جو رضا و رغبت کے ساتھ اپنے شوھروں کو دوسری شادی کی اجازت دے دیتی ھیں ، عورتوں کی یہ رضا مندی اس بات کی دلیل ھے کہ ” تعدد ازواج “ کا مسئلہ انسانی فطرت سے ھم آھنگ ھے ۔ اگر یہ خلاف فطرت قانون ھوتا تو عورت کسی بھی قیمت پر مرد کو دوسری شادی کی اجازت نہ دیتی۔ اگر کسی گھر میں ناراضگی ، اختلافات دکھائی دیتے ھیں تو اس کی وجہ صرف یہ ھے کہ وھاں امتیاز برتا جاتا ھے
عورتوں کے ساتھ انصاف نھیں ھوتا ھے اسلام کا اعلان ھے”اور اگر یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کر سکنے کا خطرہ ھے تو جو عورتیں تمھیں پسند ھیں دو تین ۔چار ان سے نکاح کر لو اور اگر ان میں بھی انصاف نہ کر سکنے کا خطرہ ھے تو صرف ایک ( یا جو کنیزیں تمھارے ھاتہ کی ملکیت ھیں یہ بات انصاف سے تجاوز نہ کرنے سے قریب تر ھے “ ۔( ٨
مختصر یہ بعض اوقات کچہ مردوں کے غیر معقول اور سخت گیر رویہ سے گھروں میں شدید اختلاف پیدا ھو جاتا ھے اور شرعی و اخلاقی فریضہ میںبیویوں سے انصاف نہ کرنے کی وجہ سے گھر یلو ماحول مھر و محبت کے بجائے دھکتا ھوا جھنم بن جاتا ھے ۔ اس لئے مسلمانوں کے اعمال کی طرف توجہ دئے بغیر اسلام کے احکام کی گھرائی کو سوچنا چاھئے تاکہ حقیقت کا پتہ چل سکے ۔ اسلام کے اندر ایسے بھی دستور و قانون موجود ھیں جن کی بناء پر مردوں کو عورتوں سے منصفانہ سلوک کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ھے مثلاً اگر کوئی مرد بیوی کا نان و نفقہ نھیںدیتا یا بیویوں میں عدالت سے کام نھیں لیتا اور اپنی ذمہ داری کا احساس نھیں کرتا تو اس سے شرعی باز پرس ھو گی اور اس کو سز ابھی دی جائے گی ۔
البتہ دلی لگاؤ اور قلبی جھکاؤ انسان کی قدرت سے باھر کی چیز ھے اور بھت ممکن ھے کہ کسی عورت کے اندر زیادہ خصوصیات ھوں جس کی بناء پر مرد اس سے زیادہ محبت کرتا ھو ، اسی لئے اسلام نے مرد کونان و نفقہ ، مکان ،ھمبستری اور تمام روحانی ، جسمانی اور مالی خواھشات کی مساوات پر مجبور کیاھے یعنی جو چیزیں انسان کے بس کی ھیں ان میں عدالت شرط ھے اس میں کسی قسم کی زیادتی اور ظلم و ستم جائز نھیں ھے لیکن جو باتیں انسان کے بس سے باھر ھیں ان میں عدالت شرط نھیں ھے ۔
عورتوں کے لئے جن حقوق کی خانگی زندگی میں زیادہ اھمیت ھے اسلام نے ان کی حفاظت کی ھے اور یہ طے شدہ بات ھے کہ دلی لگاؤ کی وجہ سے اگر برتاؤ میں فرق پڑ جائے تب تو عورت کے حقوق ضائع ھوتے ھیں لیکن اگر کسی عورت سے قلبی لگاؤ ھونے کے باوجود لباس ، خوراک ، مکان ، اور دیگر ضروریات زندگی میں مثلا ھمبستری وغیرہ میں کوئی فرق نھیں پڑتا بلکہ عدالت کے موافق کام ھوتا ھے تو پھر اس قلبی لگاؤ کی کوئی اھمیت نھیں ھے ۔ اسی لئے خانگی زندگی میں بے مھری ، کے آثار نھیں پیدا ھونے دنیا چاھئے۔ قرآن کھتا ھے : عورت کو معلق ( نہ شوھر دار نہ بے شوھر ) نہ کرو اس کو
موت و زندگی کے بیچ میں مت پھنساؤ ۔ اسی لئے کسی مرد کو یہ حق نھیں ھے کہ اپنی کچہ بیویوں کے ساتھ بے رخی سے پیشآئے اور ان کو بیچ منجدھار میں چھوڑ دے ۔
حضور سرور کائنات کے زمانے میں جب یہ حکم نافذ ھوا تو جن اصحاب کے پاس چار بیویاں تھیں ان کو پابند بنایا گیا کہ اگر سب کے ساتھ انصاف نہ کر سکو تو صرف ایک بیوی پر اکتفا کرو اور اگر انصاف بھی کر سکتے ھو تو چار بیویوں سے زیادہ نھیں رکہ سکتے ۔ اس حکم کے ذریعے اسلام نے ” تعدد ازواج “ کے غیر عادلانہ برتاؤ، عورتوں کے حقوق سے لا پرواھی اورمطلق العنان جنسی بے راہ روی پر پابندی عائد کر دی اور ھر ظلم و ستم کا خاتمہ کر دیا ۔
مسلمانوں میں جو مذھبی قانون کے پابند تھے ان میں ایسے لوگ بھی ملتے ھیں جنھوں نے عورتوں کے مرنے کے بعد بھی عدالت و انصاف کے دامن کو ھاتہ سے نھیں چھوڑا مثلاً ” معاذ بن جبل “ صحابی پیغمبر کی دو بیویاں تھیں اور طاعون میں دونوں ایک ساتھ مر گئیں ۔ معاذ اس وقت بھی عدل انصاف سے کام لینا چاھتے تھے کہ کس کو پھلے دفن کیا جائے ۔
( چنانچہ انھوں نے اس کام کے لئے قرعہ اندازی سے کام لیا “ ( ٩
مغرب میںبھی بعض ایسے منصف مزاج دانش مند پیدا ھوئے ھیں جنھوں نے اس مسئلے پر کافی غور و خوض کے بعد
(SCHOPENHAUER) فیصلہ دیا ھے کہ ” تعدد ازواج “ معاشرے کی ایک اھم ضرورت ھے ۔ مشھور جرمنی فلسفی شوپنھاور اپنی کتاب عورتوں کے بارے میں چند باتیں میں تحریر کرتا ھے : جس مذھب میں ” تعدد ازواج “ کا قانون موجود ھے اس میں اس کا امکان ھے کہ عورتوں کی ایسی اکثریت جوکُل کے قریب ھو شوھر ،فرزند اور سرپرست سے ھمکنار ھو ۔ لیکن یورپ کے اندر کلیسا ھم کو اس بات کی ا جازت نھیں دیتا اس لئے شوھر دار عورتیں بغیر شوھر والی عورتوں سے کئی گنا کم تعداد میں ھیں۔ بھت سی کنواریاں شوھر کی آرزو لے کر اور بھت سی عورتیں اولاد کی خواھش لے کر اس دنیا سے چلی
گئیں اور بھت سی عورتیں اور لڑکیاں جنسی خواھش کے ھاتھوں مجبور ھو کر اپنی عفت کھو بیٹھیں اور بد نام ھو گئیں اور ساری زندگی آتش عصیاں و تنھائی میں جلتی رھیں اور انجام کار اپنی فطری خواھش تک نہ پھنچ سکیں اگر تعدد ازواج کا قانون ھوتا تو یہ بات نہ ھوتی ۔
کافی غور وخوض کے بعد بھی کوئی دلیل نھیں ملی کہ اگر کسی مرد کی بیوی زمین گیر مرض میں گرفتار ھو یا بانجہ ھو ، یا عمل حمل و وضع سے عاجز ھو تو وہ بے چارہ دوسری عورت سے شادی کیوں نہ کرے ؟ اس کا جواب کلیسا کو دینا چاھئے مگر کلیسا کے پاس کوئی جواب نھیں ھے ۔ بھترین قانون وہ ھوتا ھے جس کے سھارے زندگی کی سعادت محفوظ رھے نہ کہ وہ جس کی بدولت زندگی جھنم کا نمونہ بن جائے ۔
(ANIE BESANT ) آنی بسنٹ
تحریر کرتی ھے : مغرب کا دعویٰ ھے کہ اس نے ” تعدد ازواج “ کے قانون کو نھیں قبول کیا لیکن واقعیت یہ ھے کہ بغیرقبول کئے یہ قانون مغرب میں موجود ھے بایں معنی کہ مرد جب اپنی معشوقہ سے سیر ھو جاتا ھے تو اس کو بھگا دیتا ھے اور یہ بے چاری گلی کوچوں میں ماری ماری پھرتی ھے کیونکہ پھلا عاشق اپنی کوئی ذمہ دار ی محسوس ھی نھیں کرتا اور عورت کی یہ حالت ھزار درجہ اس عورت کی حالت سے بدتر ھے جو قانونی شوھر رکھتی ھے بال
بچے والی ھے ،خاندان میں شوھر کے زیر حمایت زندگی بسر کر رھی ھے ۔ میں جب ھزاروں عورتوں کو رات کے وقت سڑکوں پر حیران و سر گرداں دیکھتی ھوں تو مجبورا سًوچتی ھوں کہ اھل مغرب کو اسلام کے ”تعدد ازواج “ کے قانون پر ھرگز اعتراض نھیں کرنا چاھئے ۔جو عورت ”تعدد ازواج“ قانون کے ماتحت شوھر رکھتی ھے ، گود میں چھوٹے چھوٹے بچے رکھتی ھے اور نھایت احترام کے ساتھ شوھر کے خاندان میں زندگی بسر کرتی ھے وہ ھزاروں ھزار درجے اس عورت سے بھتر ھے جو گلی کوچے میں حیران و پریشاں گھومتی ھے، گود میں نا جائز بچہ رکھتی ھے جس بچے کو کوئی قانونی حمایت حاصل نھیں ھے ، جو دوسروں کی شھوتوں کے قربان گاہ پر بھینٹ چڑہ چکی ھے ۔
(Dr. GUSTAVELEBON )
ڈاکٹر گوسٹاو لبون لکھتا ھے : مشرقی رسم و رواج میں سے ” تعدد ازواج “
کے مسئلے کو مغرب میں جس قدر غلط طریقے سے پیش کیا گیا ھے کسی بھی رسم کے بارے میں ایسا نھیں ھوا ھے ، اور کسی بھی مسئلے پر مغرب نے اتنی غلطی نھیں کی ھے جتنی ” تعدد ازواج “ کے مسئلے پر کی ھے ، میں واقعاً متحیر ھوں اور مجھے نھیں معلوم کہ مشرق میں” تعدد ازواج “ کا مسئلہ مغرب کے ” فریبی ازدواج “ سے کس طرح کم ھے اور اس میں کیا کمی ھے ۔
( میرا تو یہ عقیدہ ھے کہ ” تعدد ازواج “ کا شرعی مسئلہ ھر لحاظ سے بھتر و شائستہ ھے ۔ ( ١٠
حوالے:
١۔حقوق زن در اسلام و اروپا ص ٢١۵
٣۵ /٩ / ٢۔ ایرانی اخبار” اطلاعات“ ١١
٣۔خواندینھا شمارہ ٧١ سال ١۴
٣٨/١٢/ ۴۔ ایرانی اخبار” کیھان“ ٣
۵۔سروس مخصوص خبر گزاری فرانسہ اطلاعات ١٢٢٣٩
۶۔ ایرانی اخبار” اطلاعات“ ٢٠ بھمن ۴٨ شمارہ ١٣١۶
۴٠/٨/ ٧۔ایرانی اخبار” اطلاعات“ ٢٩
٨۔سورہ نٔسا/ ٣
٩۔مجمع البیان ج ٣ ص ١٢١
١٠ ۔تمدن اسلام و عرب ص ۵٢۶ ۔
Bookmarks