رزق کی کشادگی کا خاص رازقارئین عبقری کیلئے
ایک ڈاکٹرصاحب نے سعودی عرب میں اپنا کلینک کھولا‘ بڑی محنت سے اسے سامان سے مزین کیا ‘ بڑی پبلسٹی کی‘ خیال تھا کہ بڑی آمدنی ہوگی ‘ بڑے مریض آئیں گے‘ لیکن ایک عرصہ گزر گیا ان کے کلینک میں کوئی مریض نہیںآیا‘ انہیں لگایا ہوا سرمایہ بھی ڈوبتا ہوا نظر آیا‘ بڑی پریشانی ہوئی لیکن خوش قسمتی کے ساتھ ان کا کسی اللہ والے کے ساتھ اصلاحی تعلق تھا جو کہ پاکستان میں رہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان سے رابطہ کیا اور عرض کیا کہ اتنا عرصہ گزر گیا ہے مجھے کلینک بنائے ہوئے کوئی ایک بھی مریض نہیںآیا آپ دعا بھی فرمائیں اور کوئی عمل وظیفہ بھی بتائیں اس اللہ والے نے ان سے ارشاد فرمایا کہ اکرام (مسلم) کرو اور ہاں اکرام سنت سمجھ کر کرنا انشاء اللہ آپ کاکام بن جائے گا۔ اللہ اس عمل کی برکت سے بے حساب روزی عنایت فرمائے گا اور دوسری بات یہ یاد رکھنا نظر مریض کی شفاء پر رکھنا‘ مریض کی جیب پر نہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے اللہ والے کی باتوں پر عمل کرتے ہوئے سعودی عرب میں مقیم اپنے ایک دوست کو فون کیا اور ان سے رات کا کھانا اپنے ہاں کھانے کی دعوت دی‘ ان کے دوست نے جواب دیا کہ آپ کے بیوی بچے تو یہاں ہیں نہیں آپ کھانا کیسے تیار کریں گے؟ انہوں نے کہا سالن وغیرہ میں خود تیار کرلونگا۔ روٹیاں باہر ہوٹل والے سے لے لیں گے آپ ضرور بہ ضرور تشریف لائیں ان کے دوست نے بڑی خوشی سے ان کی دعوت کو قبول کیا اور شام کو تشریف لائے۔ان کے دوست کھانا کھا کر ابھی گھرجاہی رہے تھے کہ مریض آنے شروع ہوگئے۔
بندہ نے اسی دن سے یہ عہد کرلیا کہ جب بھی کوئی مہمان تشریف لائے گا اس کا ہر ممکن حد تک اکرام کیا کرونگا۔ الحمدللہ جب بھی کوئی مہمان آتا ہے بندہ بڑا خوش ہوتا ہے اور بلامبالغہ بے شمار دفعہ کا یہ مجرب عمل ہے۔ بندہ کے ہاں جب بھی مہمان آئے یا خود اپنے رشتہ داروں یا دیگر دوست احباب اقرباء کو اپنے گھر پر اکرام کی نیت سے لیکر آیا تو رزق کے دروازے کھل گئے۔ تنگدستی کے در بند ہوگئے۔ گھر کے گلستان میں بہار آگئی۔
گھر کا سکون حاصل کرنے کا خاص عمل
میری بیوی کی ایک قریبی عزیزہ اپنے بچوں کے ساتھ کچھ عرصہ قبل کراچی گھرپر تشریف لائیں‘ انہوں نے اپنے گھر کے حالات تفصیل سے بتائے کہ میرے شوہر شروع ہی سے اچھا خاصا کماتے ہیں‘ ان کا چپس کا کاروبار ہے‘ ہزاروں روپے کے ٹھیکے‘ لیتے ہیں‘ مشینیں الگ کرائے پر چلتی ہیں‘ ٹھیک ٹھاک آمدنی ہونے کے باوجود مجھے اور اپنے بچوں کو تنگی میں رکھتے ہیں‘ باہر عیاشیوں میں ہزاروں روپے خرچ کردیتے ہیں‘ لیکن اپنے گھر میں روزمرہ کی ضروری اخراجات کیلئے ہفتہ میں جو پانچ چھ سو روپے دیتے ہیں ان کا بھی بڑی سختی سے حساب لیتے ہیں ان کے اس رویہ سے میں بیماریوں کا مجموعہ بن چکی ہوں‘خون کی کمی‘ یرقان جیسی بیماریاں لگ چکی ہیں وہ بھی علاج نہیں کرواتے‘ میں بھی زندگی سے بیزار ہوچکی ہوںاور جان بوجھ کر اپنا علاج نہیں کرواتی کہ مرجاؤنگی تو دنیا سے تو جان چھوٹ جائے گی۔ بندہ نے ان سے پوچھا کہ آخر وہ ایسا کیوں کرتا ہے ؟ اسے اپنے بچوں تک کا خیال نہیں؟ پھر خود ہی کہنے لگیں دراصل وہ ایک بدعقیدہ شخص ہے ‘ اس کے اپنے ہی نظریات ہیں‘ اس کا اپنا ہی مذہب ہے‘ نہ نماز پڑھتا ہے اور نہ ہی پاکی ناپاکی کا خیال رکھتا ہے‘ میں اللہ کے فضل و کرم سے پانچ وقت کی نمازی ہوں‘ تہجد بھی پڑھتی ہوں میں کیسے اس کے گمراہ رستے پر چل سکتی ہوں؟ میرے انکار پر وہ مجھے ان اذیتوں سے گزارتا ہے جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔
میں نے اس بہن کو تسلی دی اور کافی دیر سمجھانے کے بعد کہا کہ آپ صرف ایک عمل کریں اور اس عمل میں نیت اللہ کی رضا اور اس کی مخلوق کی خدمت کا جذبہ ہو اور وہ عمل یہ ہے کہ آپ جب بھی کھانا پکائیں تو اس میں سے کچھ حصہ نکال کر اکرام کی نیت کے ساتھ اپنے غریب پڑوسیوں کو بھیجیںاور گھر پر آئے ہوئے مہمانوں کا خوب اکرام کریں ان کی بے لوث خدمت کریں آپ کا اس طرح کرنے سے اللہ تعالیٰ آپ کے سب بگڑے ہوئے کام بنادے گا۔ اس عمل کی برکت سے آپ کی روزی میں وسعت پیدا ہوجائے گی آپ کے شوہر میں اس عمل کی برکت سے تبدیلی آجائے گی۔ اس عمل کی برکت سے آپ کی بیماریاں ختم ہوجائیں گی اس عمل کی برکت سے آپ کا گھر شادو آباد ہوجائے گا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ میں گھر جاتے ہی اس پر عمل شروع کردوں گی۔
ان کے جانے کے چند ماہ بعد ان کا فون آیا انہوں نے بتایا کہ الحمدللہ آپ کے بتائے ہوئے عمل سے اللہ نے فضل وکرم فرمایا۔ میرے شوہر نے میرا علاج کروانا شروع کردیا ہے جس سے طبیعت بھی پہلے سے بہتر ہے۔اس کے علاوہ اہل محلہ بھی مجھ سے بڑے خوش ہیں اور میرے دکھ سکھ کا بڑا خیال رکھتے ہیں اس عمل کی برکت سے میرے آدھے سے زیادہ مسئلے حل ہوچکے ہیں۔ بندہ نے مستقل اس عمل کو جاری رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اسی عمل کی برکت سے اللہ کے فضل و کرم سے دیگر سارے مسائل بھی حل ہوجائیں گے۔ ثابت قدمی سے اللہ سے مانگتے ہوئے عمل کو جاری رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے جو کرشمے اس کے دیکھے ہیں اب میں مر تو سکتی ہوں پر اس عمل کو نہیں چھوڑوں گی اب ماشاء اللہ اس عمل کی برکت سے وہ شادو آباد ہیں۔ سبحان اللہ۔
چھوٹا سا عمل اور برکت ہی برکت
میرے دواخانہ پر ایک بہن تشریف لائیں اور اپنا مسئلہ بیان کیا کہ ہمارے گھر میں برکت نہیں ہے‘ گھر میں چند افراد رہتے ہیں‘ جتنا بھی کھانا پکالو کم پڑجاتا ہے‘ اسی طرح راشن بھی جلدی ختم ہوجاتا ہے‘ میرے شوہر کی آمدنی بہت کم ہے وہ اکثر اس بات پر لڑتے ہیں کہ میں اتنا راشن لاتا ہوں جو دوسروں کے گھروں میں دو دو مہینہ چلتا ہے اور تم لوگ اتنا راشن ایک مہینہ بھی نہیں چلاتے‘ ان کی اس گفتگو سے مجھے غصہ آجاتا ہے میں بھی جواب دینا شروع کردیتی ہوں اور یوں ہمارے گھر میں ہر وقت لڑائی جھگڑے جاری رہتے ہیں۔روتے ہوئے کہنے لگیں ا ے کاش! ہم غریب نہ ہوتے امیر ہوتے تو ہمارے گھر میں بھی امن و امان ہوتا اور یہ روز روز کے جھگڑے نہ ہوتے یہ بات کہہ کر وہ ہچکیاں لینے لگیں۔
عاجز نے ان کو سمجھانے کی نیت سے ایک حدیث مبارکہ سنائی کہ میرے آقاﷺ کے ایک صحابی حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اپنے قبیلے کے سردار اور مالدار تھے وہ شان امیری کی وجہ سے اپنے آپ کو غرباء سے اونچا تصور کرتے تھے میرے سردار حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا (کس خیال میںہو) یہی غریب تو ہیں جن کے صدقے سے تم رئیس ہو اور کھاتے پیتے ہو۔
میری بہن یہ آپ نے کیا کہہ دیا اے کاش ہم غریب نہ ہوتے‘ میری بہن! ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اپنا چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ہم غرباء اور مہاجرین حلقہ بنائے بیٹھے تھے کہ حضور نبی اکرمﷺاس حلقہ میں شامل ہوگئے‘ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کہتے ہیں میں بھی ان کے ساتھ جاکر بیٹھ گیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے خوشخبری سنائی مہاجرین غرباء کو کہ وہ مالداروں سے پہلے جنت میں جائیں گے۔
بہن غریب تو اللہ کے ہاں بڑا مقام رکھتے ہیں‘ باقی رہا آپ کا مسئلہ تو میرے خیال میں آپ کے گھر میں بے برکتی ہے‘ برکت نہیں ہے اور بقول کسی اللہ والے کے کہ برکت کسی جانور یا کسی ظاہری چیز کا نام نہیں ہے‘ جو ہم بازار سے خرید کر گھر لے آئیں اور اس کاگھر برکت سے بھرجائے۔ برکت تو اعمال سے آئے گی‘ اس لیے آپ نماز اور تلاوت کلام پاک کی پابندی کریں اور بندہ اس کے ساتھ ایک نسخہ عرض کرتا ہے اگر آپ نے اس پر خلوص دل کے ساتھ اللہ کو راضی کرنے کی نیت کے ساتھ اس نسخے کو استعمال کرلیا تو انشاء اللہ آپ کے گھر سے کبھی روزی ختم نہیں ہوگی جس طرح کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ساتھ ہوا کہ ایک ان کے گھر مہمان آئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میںمدینہ طیبہ میں تھے۔ عشاء کی نماز کے بعد تک حضور اکرم ﷺ کے ساتھ رہے جب رات زیادہ گزر گئی تو مدینہ سے باہر مکان پر تشریف لائے ابھی تک مہمانوں نے کھانا نہیں کھایا تھا۔ اپنے فرزند حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ پر بہت غصہ ہوئے ۔ کھانا لایا گیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے سب سے پہلے بسم اللہ کہہ کر کھانے میں ہاتھ ڈالا پھر ان لوگوں نے بھی کھایا اس کھانے میں اس حد تک برکت ہوئی کہ ایک لقمہ اٹھاتے تھے تو نیچے سے بڑھ جاتا تھا یہاں تک کہ سب لوگ سیر ہوگئے اور کھانا جتنا تھا اس سے زیادہ بڑھ گیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے دیکھا تو اپنی بیوی سے فرمایا یہ کیا معاملہ ہے؟ اس نے کہا میری آنکھوں کی ٹھنڈک اب یہ پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ غالباً فرمایا یہ تین گنا زیادہ ہے۔ بہرحال جب سب لوگ سیر ہوچکے پیٹ بھر چکے تو اسی کھانے سے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں بھی بھیجا‘کچھ کھانا آپﷺ نے اس میں سے رہنے دیا‘ صبح کو اور لوگوں نے بھی کھایا۔ واللہ اعلم۔ کتنے لوگ تھے ان سب نے اس کھانے میں سے کھایا۔ یہ واقعہ سن کر وہ بہن کہنے لگی کہ یہ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی کرامت تھی۔ بندہ نے عرض کی بے شک کرامت تھی اور کرامت مہمانوں کی خدمت سے ظاہر ہوئی جس اللہ تعالیٰ نے ان کے کھانے میں برکت ڈالی وہ اللہ آج بھی اس پرقادر ہے بس شرط خلوص اخلاص کی ہے۔ بندہ کی جب شادی ہوئی تو میرے ولیمہ میں صرف تین دیگیں تھیں دو بارہ بارہ کلو کی پلاؤ کی‘ ایک میٹھے کی۔ اس کھانے میں اللہ تعالیٰ نے اتنی برکت دی کہ پوری بارات نے کھانا کھایا‘ پورے محلے والوں نے کھایا‘ رشتے داروں نے کھایا‘ کئی کے گھروں میں پہنچایا پھر بھی بچ گیا اور اب بھی الحمدللہ ثم الحمدللہ ہم ایک وقت کا پکایا ہوا سالن دو دو وقت کھاتے ہیں۔ یہ ہمارا کمال نہیں یہ سنت نبوی ﷺ کا کمال ہے۔
بہن آپ اس نسخے کو اپنائیں اور اپنے گھر کو خوشحال بنائیں اور اگر ممکن ہو تو جو بھی راشن لیکر آئے اس پر 129بار سورۂ کوثر اول و آخر گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف پڑھ کر دم کردیں پھر قدرت ربی کا مشاہدہ دیکھیں۔ بہن مطمئن ہوکر دعائیں دیتی ہوئی چلی گئیں کچھ دنوں بعد جب دوبارہ تشریف لائیں تو بڑی خوش تھیں‘ میرے پوچھنے سے پہلے بتانا شروع کردیا کہ اب اللہ کے فضل و کرم سے آپ کے بتائے ہوئے عمل پر عمل کی برکت سے ہمارے گھر میں امن بھی ہے‘ سکون بھی ہے‘ رزق میں بھی برکت ہے‘ مہمانوں کا اکرام‘ پڑوسیوں کا اکرام بدستور جاری ہے بلکہ ہمارے رویے سے اہل محلہ بھی بدل گئے ہیں۔ وہ بھی ہمارے گھر کھانے بنا بنا کر بھیجتے ہیں پہلے صرف اپنے ہی ہاتھ کے کھانے کھاتے تھے اب مختلف ہاتھوں کے خلوص اور جذبے سے بنے ہوئے طرح طرح کے کھانے کھانے کو ملتے ہیں ہر کھانے کا اپنا الگ ایک جدا ہی لطف ہے۔ جزاک اللہ۔
بزرگوں کی دعا سے آفات ٹلتی ہیں
میرے پاس ایک بہن اپنے مسائل لے کر آئیں میں نے انہیں نماز کی تلقین کی اور اعمال بتائے وہ چلی گئیں کافی دنوں بعد تشریف لائیں اور بتایا کہ میں نے نماز شروع کردی ہے‘ مجھے دیکھ کر بچے بھی نماز پڑھنے لگ گئے ہیں مسائل اگرچہ مکمل طور پر حل نہیں ہوئے البتہ کم ضرور ہوئے ہیں اور بڑی بات یہ کہ اب دل کو سکون رہتا ہے‘ گھر میں بھی امن و سکون ہے۔ اسی دوران میں نے اسے ایک خاص عمل بتایا کہ اپنے مسائل کے حل کیلئے اسی(80) سال سے زیادہ عمر کے بزرگوں سے دعا کروایا کرو۔ اللہ ان کی دعا رد نہیں کرتا۔ آپ کا مسئلہ کیسا بھی ہو حل ہوجائے گا۔ پھر میں نے بتایا ایک دور دراز علاقے کا پتہ چلا ہے کہ وہاں ایک پورے سو سال کی ایک بڑھیا رہتی ہیں‘ جس نے مجھے بتایا ہے کہ اس نے سال قبل اس سے ملاقات کی تھی اب اللہ جانے زندہ ہے کہ نہیں۔میں نے اس بہن کو ایڈریس سمجھا دیا۔
اس نے کہا کہ آپ دعا کریں اللہ کرے یہ بڑھیا زندہ ہو‘ میں کل ہی اس سے ملاقات کیلئے جارہی ہوں‘ بندہ نے حوصلہ افزائی کی اور اپنے لیے بھی دعاؤں کی درخواست کی‘ ادویات لیکر یہ بہن چلی گئی‘ پورے ایک ماہ بعد آئیں اور بتایا کہ آپ کا بتایا ہوا عمل سورۂ قریش پڑھتی گئی‘ الحمدللہ بوڑھیا سے ملاقات ہوئی‘ ان کے گھر والوں نے بڑا اکرام کیا‘ انہوں نے بوڑھی اماں جی سے ملاقات کروائی۔ واقعی وہ اتنی بوڑھی تھیں کہ ان کے سر کے بال تو سفید تھے ہی ان کی آنکھوں کی بھوئیں تک سفید تھیں اور چند سفید بال ٹھوڑی پر بھی تھے۔ بہرحال میں نے اس بوڑھی اماں کو اپنے آنے کا مقصد بتایا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور بے ساختہ انہوں نے مجھے بیٹی کہتے ہوئے اپنے سینے سے چمٹا لیا اور میرے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے ڈھیروں دعائیں دیں پھر اپنے پاس بٹھایا اور جب میں رخصت ہونے لگی حیرت انگیز طور پر سرہانے کے نیچے سے نکال کر مجھے بیس ہزار روپے دینے چاہے‘ میں نے بہت انکار کیا اور بارہا کہا …میں صرف دعائیں کروانے آئی تھی پیسے لینے نہیں… انہوں نے یہ کہہ کر زبردستی میرے ہاتھ میں تھما دئیے کہ یہ ایک ماں کی طرف سے اپنی بیٹی کو ہدیہ ہے اور ہدیہ لینے سے انکار نہیں کیا جاتا ان کے اصرار پر مجھے یہ روپے لینے پڑے۔ یہ بات بتا کر کہنے لگیں کہ اس بوڑھی ماں کے گھر کے بچے بچے کو میں نے خوشحال دیکھا‘ مال و دولت بے حساب لیکن اتنی دولت ہونے کے باوجود بچہ بچہ باادب اور بااخلاق ہے بعد میں مجھے اس بوڑھی ماں کے بڑے بیٹے کی بیوی نے یہ بات بتا کر حیران کردیا کہ ہم چند سال پہلے بہت غریب تھے‘ ضرورت زندگی بھی مشکل سے مہیا تھی یہ سب اس ماں کی دعاؤں اور اس کے بیٹوں کا اس کے ساتھ حسن سلوک کا صدقہ ہے۔ یہ بہن کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا کہ یہ فراوانی مال و دولت حاصل ہوئے کتنا عرصہ ہوا ہے انہوں نے بتایا کہ آج سے تقریباً بیس بائیس سال پہلے میں نے دل ہی دل میں حساب لگایا تو بیس بائیس سال پہلے اماں اسی سال کی عمر کو پہنچ گئیں تھیں۔ بہرحال کہنے لگی اس بوڑھی ماں کی دعاؤں سے مجھے بہت ہی فرق پڑا ہے‘ اور میرے کافی مسائل حل ہورہے ہیں۔
Bookmarks