نہ چاہ کر بھی اسے دل سے چاہتے تھے ہم
کسی کی لاگ میں تابش لگاؤ ایسا تھا
نہ چاہ کر بھی اسے دل سے چاہتے تھے ہم
کسی کی لاگ میں تابش لگاؤ ایسا تھا
جو محبّت سے بُلاتا ہے، چلا آتا ہُوں میں
سہل جس کا جوڑنا ہے بس وہی ناتا ہُوں میں
کوئی شکوہ اپنے ہونٹوں پر کہاں لاتا ہُوں میں
اپنے من کی آگ میں چُپ چاپ جل جاتا ہُوں میں
جو مِرا رب ہے، وہی ہے ربِّ حُسنِ کائنات
کب حصارِ حُسن سے باہر کہیں جاتا ہُوں میں
حُسن جیسا ہو، جہاں ہو، کھینچ لیتا ہے مجھے
بے اِرادہ، بے سبب ، کِھنچتا چلا جاتا ہُوں میں
یہ مِرا، میرے قلم سے ایک سمجھوتا سا ہے
یہ جو لِکھواتا ہے مجھ سے بس لِکھے جاتا ہُوں میں
راستوں کی بِھیڑ بھی منزِل سے کردیتی ہے دُور
کیسے انجانے سے رستوں پر نِکل جاتا ہُوں میں
جب بُلائے گا خُدا تو اُس کے گھر بھی جاؤں گا
بِن بُلائے تو کسی کے گھر نہیں جاتا ہُوں میں
یہ نہیں ہے گر، تو آخر اور ناسمجھی ہے کیا
جو سمجھ سکتے نہیں ہیں اُن کو سمجھاتا ہُوں میں
جہل جیسا ہو بُرا ہے، جہلِ مذہب الاماں !
خودکشی کرتا ہے کوئی اور مر جاتا ہُوں میں
بحرِ غم میں ناؤ کی صُورت ہے میری زندگی
وقت کی موجیں رواں ہیں اور بہے جاتا ہُوں میں
اجنبی ماحول ہی مجھ کو بُرا لگتا نہیں
بارہا اپنوں کی محفل میں بھی گھبراتا ہُوں میں
محرمانِ شہرِ دِل، سُود و زِیاں کا کیا حِساب
جانے کیا کُچھ کھو چُکا ہُوں، جانے کیا پاتا ہُوں میں
مِیؔر کی غزلیں تو مجھ کو اور کرتی ہیں اُداس !
داؔغ کی غزلوں سے اپنے جی کو بہلاتا ہُوں میں
لوگ پچھتا تے نہیں کرکے بدی اِتنے یہاں
نیکیاں کر کر کے باقؔر جتنا پچھتا تا ہُوں میں
باقؔر زیدی
ﻣﯿﮟ ﮐﺲ ﺍﻣّﯿﺪ ﭘﮧ ﺩﺍﻣﻦ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺗﮭﺎﻡ ﻟﻮﮞ ﻣﺤﺴﻦ
ﮐﮧ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯿﮟ
- - - Updated - - -
کسی بھی دکھ پر ملال کرنا ، نہ اُس کو آیا نہ مجھ کو آیا
وفاؤں کو لازوال کرنا ، نہ اُس کو آیا نہ مجھ کو آیا
جو فاصلے تھے اُنہیں مٹانا اگرچہ دونوں ہی چاہتے تھے
مگر تعلق بحال کرنا ، نہ اُس کو آیا نہ مجھ کو آیا
دُکھوں میں ڈوبی صدائیں سُن کر، نہ وہ ہی رویا ، نہ میں ہی تڑپا
کہ روح کو مالا مال کرنا ، نہ اُس کو آیا نہ مجھ کو آیا
دُعا کے روشن چراغ اپنی ہتھیلیوں پر جلائے ہم نے
خدا سے لیکن سوال کرنا ، نہ اُس کو آیا نہ مجھ کو آیا،،!!
عجب سوال تھا اس کا جواب کیا دیتی
اسی کو ٹوٹ کے چاہا حساب کیا دیتی
وہ جس نے میرا ہر اک لفظ جھوٹ ہی جانا
میں اس کے ہاتھ میں دل کی کتاب کیا دیتی
وہ مجھ سے مانگنے آیا تھا چاہتیں میری
میں اس کو ٹوٹے ہوۓ اپنے خواب کیا دیتی
تمام عمر گزاری ہے دل جلاتے ہوۓ
اب اس سے بڑھ کے میں خود کو عذاب کیا دیتی
مری ہتھیلی پہ کچھ اشک کچھ ستارے ہیں
اس آفتاب کو میں ماہتاب کیا دیتی
بہار میری طرف دیکھتی تھی حسرت سے
وہ خار خار تھی مجھ کو گلاب کیا دیتی
- - - Updated - - -
مجھے منز لوں کا شعو ر تھا مجھے راستوں نے تھکا دیا
کبھی جن پہ مجھ کو یقین تھا ا نہی ساتھیوں نے د غا د یا
میرا ساتھ پا نے کی آرزو کبھی کتنی تم کو عزیز تھی
مجھے تم پہ کتنا غرور تھا سبھی خاک میں وہ ملا دیا
کبھی اس طرف جو گزر ہوا میری چشم تر کو بھی دیکھنا
تیری بدگما نی کی آنچ نے مجھے کیا سے کیا ہے بنا دیا
نئے خواب بن کے نگاہ میں میری دسترس سے نکل گیا
بنی اس کے پاؤں کی دھول میں مجھے یہ وفا کا صلہ دیا
میں تیری ہی ذات کا عکس تھی تیرا عشق تیرا نصیب تھی
میں تو منزلوں کا نشان تھی مجھے بے نشان بنا دیا
مجھے منز لوں کا شعو ر تھا مجھے راستوں نے تھکا دیا
نوشی گیلانی------
وہ بات بات میں اتنا بدلتا جاتا ہے
کہ جس طرح کوئی لہجہ بدلتا جاتا ہے
یہ آرزو تھی کہ ہم اس کے ساتھ ساتھ چلیں
مگر وہ شخص تو رستہ بدلتا جاتا ہے
رتیں وصال کی اب خواب ہونے والی ہیں
کہ اس کی بات کا لہجہ بدلتا جاتا ہے
رہا جو دھوپ میں سر پر مرے، وہی آنچل
ہوا چلی ہے تو کتنا بدلتا جاتا ہے
وہ بات کر جسے دنیا بھی معتبر سمجھے
تجھے خبر ہے زمانہ بدلتا جاتا ہے
ہم ماٹی میں سو جائیں گےہم آج بہت بے نام سہی
گمنام سہی
تھوڑے تھوڑے بدنام سہی
یہ شعر بہت بے قیمت ہیں
جو لکھتے ہیں
یہ خواب ہمارے جھوٹے ہیں
جو تکتے ہیں
ہم لفظوں، مصرعوں کے بیلی
ہم تنہائی کے مارے ہیں
ہم پنچھی ہیں، بنجارے ہیں
اِک بات مگر سچ کہتے ہیں
ہم جیتی بازی ہارے ہیں
کل یاد کرو گے تم، ہم کو
سب غزلیں، نظمیں چھانو گے
اوروں سے کہو گے ہنس ہنس کے
اِس لڑکی کو ہم جانتے ہیں
لفظوں کی راجکماری تھی
جذبوں سے موتی چنتی تھی
ساری دُنیا سَر دُھنتی تھی
اب ماٹی اوڑھے سوتی ہے
اب اور کئی لکھنے والے
اب اور کئی پڑھنے والے
اب کس کو یاد ہے، جانے دو
اک بات کہیں
ہم یاد تمہیں جب آئیں گے، تڑپائیں گے
جب ماٹی میں سو جائیں گے
- - - Updated - - -
عباس تابش
عشق کی جوت جگانے میں بڑی دیر لگی
سائے سے دھوپ بنانے میں بڑی دیر لگی
میں ہوں اس شہر میں تاخیر سے آیا ہوا شخص
مجھ کو اک اور زمانے میں بڑی دیر لگی
یہ جو مجھ پہ کسی اپنے کا گماں ہوتا ہے
مجھ کو ایسا نظر آنے میں بڑی دیر لگی
اک صدا آئی جھروکے سے کہ تم کیسے ہو
پھر مجھے لوٹ کے جانے میں بڑی دیر لگی
بولتا ہوں تو میرے ہونٹ جھلس جاتے ہیں
اس کو یہ بات بتانے میں بڑی دیر لگی
میرے عرصے میں کوئی سہل نہ تھا کار سخن
ایک دو شعر کمانے میں بڑی دیر لگی
میں سرِ خاک کوئی پیڑ نہیں تھا تابش
اس لیے پاؤں جمانے میں بڑی دیر لگی
ادھوری ہی سہی،،،،،، لیکن کوئی تدبیر کرتے ہیں
کبھی جو خواب دیکھے تھے،انہیں تعبیر کرتے ہیں
کوئی رخصت ہوا تھا،،،،،،،لوٹ کر واپس نہیں آیا
جو باقی ہیں، وفائو ں سے انہیں زنجیر کرتے ہیں
چلو پھر سے شرارت کر کے خود کو آزماتے ہیں
چلو پھر سے نگاہوں میں اسے تصویر کرتے ہیں
ہم اب تک کہ نہیں پائے کہ ہم کو بھی محبت ہے
چلو اظہار کرتے ہیں،،،،،،،، چلو تحریر کرتے ہیں
گھروندہ بارہا ہم نے بنایا،،،،، ریت پر امجد
چلو اس بار اک کچا مکان تعمیر کرتے ہیں۰
- - - Updated - - -
جب تیری ُدھن میں جیا کرتے تھے
ہم بھی چپ چاپ پھرا کرتے تھے
آنکھ میں پیاس ہوا کرتی تھی
دل میں ُطوفان ُاٹھا کرتے تھے
لوگ آتے تھے غزل سننے کو
ہم تری بات کیا کرتے تھے
سچ سمجھتے تھے تیرے وعدوں کو
رات دن گھر میں رہا کرتے تھے
کسی ویرانے میں تجھ سے مل کر
دل میں کیا پھول کھلا کرتے تھے؟
گھر کی دیوار سجانے کے لئے
ہم تیرا نام لکھا کرتے تھے
وہ بھی کیا دن تھے ُبھلا کر تجھ کو
ہم تجھے یاد کیا کرتے تھے
جب تیرے درد میں دل ُدکھتا تھا
ہم تیرے حق میں دعا کرتے تھے
بجھنے لگتا تھا جو چہرہ تیرا
داغ سینے میں جلا کرتے تھے
اپنے جذبوں کی کمندوں سے تجھے
ہم بھی تسخیر کیا کرتا تھے
اپنے آنسو بھی ستاروں کی طرح
تیرے ہونٹوں پہ سجا کرتے تھے
چھیڑتا تھا غم ِ دنیا جب بھی
ہم تیرے غم سے ِگلا کرتے تھے
کل تجھے دیکھ کے یاد آیا ہے
ہم ُسخنور بھی ہوا کرتے تھے ..!!
شاعر: سید محسنؔ نقوی
جنــابِ ممتاز گورمانی
یہ واقعہ بھی عجب ہے، میں ہنس پڑا خود پر
گئے دنوں کی اذیت شمار کرتا ہوا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــ ـــــــــــــ
سبھی کے سامنے آنکھوں کو چار کرتا ہوا
گزر گیا میں زمانے پہ وار کرتا ہوا
خزاں رسیدہ بدن، جس کا منتظر تھا وہ شخص
کبھی نہ آیا خزاں کو بہار کرتا ہوا
یہ واقعہ بھی عجب ہے، میں ہنس پڑا خود پر
گئے دنوں کی اذیت شمار کرتا ہوا
نجانے کس کی جدائی میں جل رہا تھا چاند
سمندروں کا بھرم تار تار کرتا ہوا
بلائیں شہر کی لے کر چلا گیا درویش
دعائیں دیتا ہوا ، اشکبار کرتا ہوا
میں رفتگاں کی محبت میں چل پڑا آخر
فریب کھاتا ہوا ، اعتبار کرتا ہوا
ارے میں وہ سمجھا کہ ------ کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے پر مجھے کیا پتا کہ آپ عقلمنداوہ سوری ------ نہیں ہو، آپ کے لئے تو ریڈیو میں تصویر دینی پڑے گی ٹرک کی پھر سمجھو گی۔۔
جی جی جتنی بھاری بھرکم آپ شاعری کرتی ہو اُس سے اندازہ ہورہا ہے کہ آپ کتنا لائٹ کھانا کھاتی ہو۔۔ نہیں نہیں بھی تو میرا خیال ہے ایک وقت میں چار درجن روٹیاں ، درجن بھر ڈونگے سالن کے ، ساتھ ڈیڑھ دو درجن پلیٹ بریانی ساتھ چھ آٹھ کلو سلاداور ٹینکی بھر کولڈ ڈرنک سے شاید آپ کا گزارہ ہوتا ہو۔۔۔
جناب رحمان فارس
گفتگو کب ھے کام اُداسی کا
گہری چُپ ھے کلام اُداسی کا
خاص آنکھیں عطا ھوئی ھیں تُجھے
چھوڑ دے رنگ عام اُداسی کا
قہقہوں سے لدے پھندے ھوئے شخص !
تُجھ کو پہنچے سلام اُداسی کا
دل میں تو یُونہی آتی جاتی ھے
روح میں ھے قیام اُداسی کا
آج برسوں کے بعد آیا ھے
اُس گلی سے پیام اُداسی کا
دھیان کے پائیں باغ میں کل شب
دیدنی تھا خرام اُداسی کا
میرے لہجے میں تازہ رھتا ھے
ذائقہ صبح و شام اُداسی کا
کُود جائے گی ایک دن چھت سے
کھیل ھو گا تمام اُداسی کا !!
باوضُو ھو کے روئیے، صاحب !
کیجیے احترام اُداسی کا
راہ تھی مُسکراھٹوں کی مگر
خوف تھا گام گام اُداسی کا
پیاس کے ساتھ خوش رھُوں گا مَیں
توڑ ڈالوں گا جام اُداسی کا
اک مکمل علاج ھے تو سہی
آپ کی ناتمام اُداسی کا
عشق کے دیوتا نے بخشا ھے
ایک داسی کو نام اُداسی کا
تج دیا تاج ایک دن یُونہی
بادشہ تھا غلام اُداسی کا
آ ، محبت کے معنی سمجھاؤں
یہ بھی ھے ایک نام اُداسی کا
بڑی حسّاس سی ھے، رو دے گی
ایسے پلّو نہ تھام اُداسی کا
ایک ھنس مُکھ کی دید سے، فارس !
ھو گیا اھتمام اُداسی کا ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
دھوپ میں ہر شخص شکر لگتا ہے
بہت عمدہ شیئرنگ
ہمارے ساتھ شئر کرنے کا شکریہ
Sent from my R831K using Tapatalk
(معافی بار بار اعتبار ایک بار)
Bookmarks