sanasir said:
بدل سکا نہ جدائی کے غم اُٹھا کر بھی
کہ میں تو میں ہی رہا تجھ سے دُور جا کر بھی
میں سخت جان تھا اس کرب سے بھی بچ نکلا
میں جی رہا ہوں تجھے ہاتھ سے گنوا کر بھی
خُدا کرے تجھے دُوری ہی راس آجائے
تو کیا کرے گا بھلا اب یہاں پہ آکر بھی
ابھی تو میرے بکھرنے کا کھیل باقی ہے
میں خوش نہیں ہوں ابھی اپنا گھر لُٹا کر بھی
ابھی تک اُس نے کوئی بھی تو فیصلہ نہ کیا
وہ چُپ ہے مجھ کو ہر اک طرح آزما کر بھی
کھلا یہ بھید کہ تنہائیاں ہی قسمت ہیں
اک عمر دیکھ لیا محفلیں سجا کر بھی
ریاض مجید
- - - Updated - - -
مشام جاں کہ معطر ہے خوشبو ؤں کی طرح
کسی کی یاد فروزاں ہے جگنوؤں کی طرح
میں کیا بتاؤں مجھے کس قدر عزیز تھا وہ
بچھڑ گیا ہے جو مجھ سے گئی رتوں کی طرح
کسی نے اس کو سکھائی ہے دشمنی ورنہ
وہ بےوفا کبھی ملتا تھا دوستوں کی طرح
فریب وعدہ فردا کا زخم خوردہ ہے
تری گلی میں جو پھرتا ہے پاگلوں کی طرح
تھپیڑے موج حوادث کے ہیں نصیبوں میں
فصیل جسم شکستہ ہے ساحلوں کی طرح
کبھی وصال کی چھاؤں،کبھی فراق کی دھوپ
مزاج یار ہے ساون کے بادلوں کی طرح
یوسف خالد
Bookmarks