ایک سو پچاس سے زائد نوجوان اس قاتل کھیل کا شکار ہو چکے،،ہندوستان میں 5 افرادنے خودکشی کی،پاکستان میں یہ کھیل نیا ہے لیکن تیزی سے اپنے پنجے گاڑ رہا ہے
کونر ولموٹ آئرلینڈ کا رہنے والا 13 سالہ خوبصورت بچہ تھا۔ شرارتی آنکھیں ، اچھلتا کودتا وجود، ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور پھر اچانک ایک صبح کونر کے والد کو گھر کے قریبی میدان سے اسکی لاش ملی۔ بچے کی موت ہوئی اور وہ بھی خودکشی سے۔ اہل خانہ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ آہوں اور سسکیوں میں باپ معصوم بیٹے کو پیوندِ خاک کرتے وقت اسی سوچ میں گم تھا کہ اس کے بیٹے نے خودکشی کیوں کی؟ ذہن میں صرف یہی وجہ آئی کہ اسکول میں ضرور اس کے لاڈلے بیٹے کو کسی نے ڈانٹا ہوگا یا لڑائی کی ہوگی جس سے دلبرداشتہ ہوکر اس کے معصوم بیٹے نے موت کو گلے لگا لیا۔ پولیس کی تحقیقات کے بعد خودکشی کی وجہ سامنے آئی تو بے بس باپ چکرا کر رہ گیا کیونکہ اس کے بیٹے نے کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ ایک آن لائن گیم کھیلتے ہوئے خوشی خوشی موت کو گلے لگا یا تھا۔
صرف کونر ولموٹ ہی کیا، 150 سے زائد نوجوان ’’بلیو وہیل‘‘ نامی اس قاتل کھیل کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر یہ گیم ہے کیا اور یہ معلوم ہوتے ہوئے بھی کہ اس کا انجام موت ہے، لوگ اسے کھیلنے پر آمادہ کیوں ہو جاتے ہیں؟ اس جان لیوا گیم کو روس کے 22 سالہ شہری فلپ بوڈکن نے بنایا جو خود نفسیات کا طالب علم تھا۔ فلپ کو اس کے رویے کے باعث یونیورسٹی سے خارج کر دیا گیا تھا۔ 2013 میں اس نے اِس گیم کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے فلپ اور اس کے ساتھیوں نے سوشل سائٹ کا استعمال کرتے ہوئے خوفناک وڈیوز پوسٹ کرنا شروع کیں۔وڈیوز کو پوسٹ کرنے کا مقصد زیادہ سے زیادہ نوجوانوں خصوصاً بچوں کو متوجہ کرنا تھا۔ اس کے بعد ان افراد میں سے ایسے لوگوں کو چن کر نکالا گیا جنہیں آسانی سے نفسیاتی طور پر ہراساں کیا جاسکتا تھا۔ ایسے افراد کو فلپ کی جانب سے چھوٹے چھوٹے کام دیئے جانے لگے۔ جیسے ہاتھ پر کٹ لگا نا، چھت پر کھڑے ہونا اور کسی جانور کو مارنا وغیرہ۔
زیادہ تر بچے جانور کو مارنے کے ٹاسک کا سن کر فلپ کا ساتھ چھوڑ گئے ۔یوں اسکے پاس صرف وہ لوگ رہ گئے جو ہر قسم کے احکامات کو ماننے کے لئے تیار تھے۔ اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہا اور اسے باقاعدہ گیم شکل دے دی گئی۔ خودکشیوں کے پے در پے واقعات کے بعد جب فلپ کو گرفتار کیا گیا تو اسنے بڑی ڈھٹائی سے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اس گیم سے لوگوں کو خودکشی پر اکساتا رہا ہے۔ فلپ نے کہا کہ مرنے والے انسان نہیں بلکہ بائیولاجیکل ویسٹ یعنی حیاتیاتی فضلہ ہیں۔ انکا معاشرے میں زندہ رہنے کا کوئی مقصد نہیں۔ وہ ایسے لوگوں سے معاشرے کو صاف کرنے کے لئے یہ کام کر رہا ہے اور اس کا یہ عمل معاشرے کے لئے مفید ہے۔ فلپ کو 3تین سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے اور وہ اب جیل میں ہے۔ پولیس حکام اس بات پر حیران ہیں کہ فلپ کو جیل میں بھی نوجوانوں کے محبت بھرے خطوط بڑی تعداد میں موصول ہو رہے ہیں۔ بلیووہیل چیلنج دراصل انٹرنیٹ کی مدد سے چلنے والا گیم ہے جس میں گیم کھیلنے والا براہ راست گیم کے ایڈمنسٹریٹر سے مربوط ہوتا ہے۔ گیم کھیلنے والے کو وہیل کہا جاتا ہے اور ایڈمنسٹریٹر کوریٹر کہلاتا ہے۔بلیو وہیل چیلنج کے علاوہ اس گیم کے اور بھی کئی نام ہیں مثلاً اے سائیلنٹ ہاؤس ، اے سائلنٹ سی اور ویک می اپ ایٹ4.20وغیرہ۔ بلیو وہیل چیلنج سے متعلق دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ گیم کسی بھی ایپ اسٹور میں موجود نہیں ۔ نہ ہی اسے کسی سوشل میڈیا سائٹ سے بآسانی نکالا جا سکتا ہے بلکہ گیم میں دلچسپی رکھنے والا خود کوریٹر کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اس سے رابطہ کرے اور اسے گیم کا حصہ بنائے۔ اس کے لئے مختلف ہیش ٹیگ استعمال کئے جاتے ہیں ۔ گیم کے ایڈمنسٹریٹر اس قسم کے ہیش ٹیگز پر نظر رکھتے ہیں اور دلچسپی رکھنے والے افراد کو لنک بھیجا جاتا ہے۔ لنک کو اوپن کرتے ہی موبائل میں موجود تمام رابطہ نمبر، پیغامات، تصاویر اور ڈیٹا کوریٹر تک پہنچ جاتا ہے جسے بعد میں بلیک میلنگ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
گیم کھیلنے والے افراد دراصل اپنی زندگی کی چابی کوریٹر کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں اور اس کی ہدایات پر من وعن عمل کرتے ہیں۔ اس گیم کی جانب زیادہ تر وہی لوگ متوجہ ہوتے ہیں جو زندگی سے بیزار ہوں یا خودکشی کرنا چاہتے ہوں۔ اس کے علاوہ مہم جو لوگ بھی گیم کا حصہ بننے کو پسند کرتے ہیں لیکن ایک بارگیم کا حصہ بن جانے کے بعد اس سے نکلنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ 50 ٹاسک مکمل ہونے تک کوریٹر کھلاڑی سے متعلق تمام تفصیلات ، گھر والوں کی تفصیلات یہاں تک کہ گھر کا پتہ بھی معلوم کر چکا ہوتا ہے اور ہدایات پر عمل نہ کرنے کی صورت میں اس علاقے میں موجود دیگر وہیلز کے ذریعے کھلاڑی کے اہل خانہ کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ کھلاڑیوں کی قابل اعتراض تصاویر بھی ٹاسک کا حصہ ہوتی ہیں جنہیں بنیاد بنا کر بلیک میلنگ زیادہ آسان ہو جاتی ہے۔یہ ایک ڈئیرنگ گیم ہے جسے کل 50 روز تک کھیلا جاتا ہے۔ وہیل کو روزانہ ایک ٹاسک دیا جاتا ہے جسے مکمل کرکے فوٹو یا وڈیو بطور ثبوت کوریٹر کو بھیجنا ہوتی ہے۔ ابتدا میں یہ ٹاسک آسان اور دلچسپ ہوتے ہیں جیسے 3مرتبہ تالی بجاؤ اور اپنے آپ سے کہو کہ میں مضبوط ہوں اور پورا دن چپ رہو وغیرہ۔
اگلے مرحلے میں وہیل کو آدھی رات کو اٹھنے کا ٹاسک دیا جاتا ہے اور اسے کوریٹر کی جانب سے ڈرائونی وڈیوز بھیجی جاتی ہیں جو اسے دیکھنا ہوتی ہیں یا پھر کوئی میوزک بھیجا جاتا ہے جو وہیل کے ذہن میں منفی جذبات کو ابھارتا ہے اور اسے زندگی سے بیزار کر کے موت کو گلے لگانے کی تلقین کرتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں ذہن میں ایسے محرکات پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں جو فرد کو زندگی سے دور کرنے اور موت کو گلے لگانے کا باعث بن جاتے ہیں۔ جب وہیل ان ابتدائی چیلنجز کو پورا کرکے وڈیو اور تصاویر بھیج دیتا ہے تو کوریٹر کی جانب سے پوچھا جاتا ہے کہ اگر آپ بہادر ہو تو گیم کو جاری رکھو اور اپنی ٹانگ پر کٹ لگا کر ’’یس‘‘ لکھو ورنہ خود کو سزا دو۔ گویا فرد کو نفسیاتی طور پر چیلنج کردیا جاتا ہے۔ اس مرحلے کے بعد اگلے مرحلے میں آدھی رات کو کسی اونچی چھت پر پاؤں لٹکا کر بیٹھنے کا حکم دیا جاتا ہے یا کسی پْل کے کنارے کھڑے ہونے،آدھی رات کو قبرستان جانے اور علی الصباح ریلوے ٹریک پر کھڑے ہونے کی ہدایات دی جاتی ہیں۔ کوریٹر یہ جاننے کے بعد کہ کھلاڑی مکمل طور پر اسکے نفسیاتی کنٹرول میں ہے ،کھلاڑی کی ملاقات علاقے میں موجود کسی وہیل سے کرواتا ہے جس کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ اگر کوئی بھی کھلاڑی آگے چل کر گیم سے نکلنا چاہے تو دیگر کھلاڑی اسے جانتے ہوں اور ان کے ذریعے اسے نقصان پہنچایا جاسکے اور بلیک میل کیا جا سکے۔ اب اصل مراحل کا آغاز ہوتا ہے جن میں پہلا کام اپنے جسم کے کسی حصے پر بلیڈ یا نوک دار چیز سے زخم لگا کر یا چھید کر کے خود کو تکلیف پہنچانا ہوتا ہے۔
چیلنج پورا نہ کرنے کی صورت میں کوریٹر سزا تجویز کرتا ہے جو اپنے آپ کو تکلیف پہنچانا ہوتی ہے۔29 روز تک الگ الگ ٹاسک دئیے جاتے ہیں اور پھر 30ویں روز سے49ویں روز تک ایک ہی ٹاسک ہوتا ہے کہ کوریٹر کی جانب سے بھیجے جانے والا میوزک سنو، روز صبح 20:4 پر اٹھ کر ڈراؤنی فلم دیکھو۔ روز اپنے ہاتھ پر ایک کٹ لگاؤا ور کسی وہیل سے ملاقات کرو۔ میوزک اور وڈیوز کے ذریعے زندگی ، والدین ، رشتہ داروں یہاں تک کہ اپنے آپ سے بھی محبت ختم کردی جاتی ہے۔غرض 49 دن کی مسلسل ٹریننگ اور نفسیاتی کنٹرول کے بعد کھلاڑی زندگی سے اس قدر نفرت کرنے لگتا ہے کے اگر اسے خودکشی کا نہ بھی کہا جائے تب بھی وہ خودکشی کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے ۔ ان سب چیلنجز کو پورا کرنے کے بعد آخری چیلنج موت کی صورت میں قبول کرنا ہوتا ہے۔ گیم کو اب تک وہی لوگ جیت پائے ہیں جنہوں نے موت کو گلے لگایا ہے۔ گیم کے کل 50 ٹاسک ترتیب وار کچھ یوں ہیں
٭٭اپنے ہاتھ پر بلیڈ سے ایف 57 لکھو اور تصویر کوریٹر کو بھیجو۔
٭٭صبح 20:4 پر اٹھو اور کوریٹر کی جانب سے بھیجی جانے والی خوفناک وڈیوز دیکھو۔
٭٭ اپنے ہاتھ کو نبض کے پاس سے 3 بار کاٹو لیکن زیادہ گہرا نہیں اور کوریٹر کو تصویر بھیجو۔
٭٭ کاغذ پر وہیل کی تصویر بناؤ اور کوریٹر کو بھیجو۔
٭٭اگر آپ وہیل بننے کے لئے تیار ہو تو ٹانگ پر ’’یس‘‘ لکھو، اگر نہیں تو اپنے آپ کو کٹ لگا کر سزا دو۔
٭٭ کوڈ ورڈز ٹاسک۔
٭٭اپنے ہاتھ پر ایف 40 بلیڈ سے لکھو اور کوریٹر کو تصویر بھیجو۔
٭٭اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر آئی ایم وہیل کا اسٹیٹس ڈالو۔
٭٭اپنے خوف سے باہر آجاؤ۔
٭٭صبح 20:4 پر اٹھو اور چھت پر جاؤ۔
٭٭ بلیڈ کی مدد سے اپنے ہاتھ پر وہیل بناؤ اور کوریٹر کو تصویر بھیجو۔
٭٭ پورا دن کوریٹر کی بھیجی گئی خوفناک وڈیوز دیکھو۔
٭٭ کوریٹر کی جانب سے بھیجے جانے والا میوزک سنو۔
٭٭ اپنے ہونٹ پر کٹ لگاؤ۔
٭٭ اپنے ہاتھ پر سوئی سے کئی چھید کرو۔
٭٭اپنے آپ کو تکلیف دو اور بیمار ہو۔
٭٭سب سے اونچی چھت پر جاؤ اور کونے میں کچھ دیر کھڑے رہو۔
٭٭کسی پْل پر جاؤ اورکونے میں کھڑے رہو۔
٭٭کرین پر چڑھ جاؤ۔
٭٭کوریٹر چیک کرے گا کہ کیا آپ واقعی قابل اعتماد ہو۔
٭٭اسکائپ پر کسی وہیل سے بات کرو۔
٭٭چھت پر جاؤ اور ٹانگیں نیچے لٹکا کر بیٹھو۔
٭٭کوڈ ورڈز ٹاسک۔
٭٭سیکرٹ ٹاسک۔
٭٭کسی وہیل سے ملاقات کرو۔
٭٭کوریٹر آپکے مرنے کی تاریخ بتائے گا اور اسے قبول کرنا ہوگا۔
٭٭صبح 20:4 پر اٹھ کر ریلوے ٹریک پر جاؤ۔
٭٭پورا دن کسی سے بات نہ کرو۔
٭٭اپنے آپ سے کہو کہ آپ ایک وہیل ہو۔
٭٭ 30تا 49:کوریٹر کی جانب سے بھیجا جانے والا میوزک سنو، روز صبح 20:4 پر اٹھ کر ڈراؤنی فلم دیکھو، روز اپنے ہاتھ پر ایک کٹ لگائوا ور کسی وہیل سے ملاقات کرو۔
٭٭ کسی اونچی عمارت سے چھلانگ کر اپنی جان لے لو۔ اب تک دنیا بھر میں 150 سے زائد افراد اس خونی کھیل کی وجہ سے خودکشی کر چکے ہیں جن میں سے130 کا تعلق روس سے ہے۔ ہندوستان میں بھی یہ کھیل تیزی سے مقبول ہورہا ہے اور 5 سے زائد افراد اب تک خودکشی کر چکے ہیں۔ پاکستان میں یہ کھیل ابھی نیا ہے لیکن تیزی سے اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔
مختلف ممالک میں حکومتوں کی جانب سے اس کھیل کو روکنے کے لئے خاطر خواہ اقدامات کئے گئے ہیں اور کسی بھی سوشل میڈیا سائٹ یا ایپ اسٹور کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اس کھیل کو صارفین کے لئے پیش کرے لیکن اس گیم کے ایڈمنسٹریٹر ایپ اسٹور کے ذریعے اس گیم کو پیش بھی نہیں کرتے بلکہ کھلاڑی کی جانب سے خود پہلا قدم اٹھا کر انہیں دعوت دی جاتی ہے۔
یوکرائن کی 15سالہ ویلینا پاؤن بھی اسی گیم کا شکار ہونے والوں میں سے ایک تھی جس نے 8 دسمبر 2016 کو اپارٹمنٹ کی چھت سے چھلانگ لگاکر خودکشی کرلی تھی۔ خودکشی سے کچھ دیر قبل ویلینا نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پوسٹ کی لیکن کسی نے اسکا فوری نوٹس نہیں لیا۔ اپنی آخری پوسٹ میں ویلینا نے لکھا تھا کہ ’’اسے بس آخری قدم اٹھانا ہے، اسے یہ آسان لگا تھا مگر حقیقتاً یہ آسان نہیں بلکہ بہت خوفناک ہے‘‘۔ ایک اور پوسٹ میں ویلینا نے ’’سی یو ان ہیل باسٹرڈ‘‘ بھی لکھا تھا۔
ویلینا کی سہیلیوں نے کہا کہ اس نے خودکشی ایک آن لائن گروپ کے حکم پر کی تھی۔ ویلینا نے اپنے کوریٹر کو لکھے گئے خط میں کہا تھا کہ: ’’ میں کیسے مرنا چاہتی ہوں؟ میں چاہتی ہوں کہ میری موت شاندار ہو۔ایسی شاندارکہ لوگ اسے ہمیشہ یاد رکھیں۔ میرا خیال ہے کہ میں چھت سے کود کر مرنا پسند کروں گی لیکن میں اکیلے نہیں کودنا چاہتی۔ میں اس شخص کے ساتھ چھلانگ لگانا چاہتی ہوں جس سے میں محبت کرتی ہوں۔ ہم دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر سخت کنکریٹ کی زمین پر چھلانگ لگا دیں گے۔ میں نہیں جانتی کہ اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی ہے یا نہیں لیکن میں یہ ضرور جانتی ہوں کہ یہ زندگی میری خواہشات کو پورا نہیں کرسکتی اور اگر میں دنیا میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتی تو میرا اس دنیا کو چھوڑ دینا ہی بہتر ہے۔ میں اکثر یہ سوچتی ہوں کہ میں یہ کیسے کروں گی؟ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیں گے اور زمین کی طرف پرواز کریں گے اور دورانِ پرواز ہمیں یہ معلوم ہوجائے گا کہ دنیا نہیں بدل سکتی کیونکہ یہ ایک بری جگہ ہے۔‘‘ ویلیناکی طرح اور بہت سے کھلاڑیوں نے خود کشی سے قبل سوشل میڈیا سائٹس پر اپنے آخری پیغامات دئیے جنہیں دیکھ کر یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ تمام کھلاڑی کسی نہ کسی ذہنی دباؤ ، احساس کمتری یا تنہائی کا شکار تھے۔ ماہرین نفسیات کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ نوجوانوں کے اندر مسلسل کشمکش جاری رہتی ہے۔ یہ زندگی کا وہ دور ہوتا ہے جب انسان کے اندر اسکی ذات سے متعلق سوالات اٹھتے رہتے ہیں کہ میں کون ہوں؟ کیا لوگ مجھے پسند کرتے ہیں؟ کیا میرے دوست مجھے پسند کرتے ہیں؟ کیا میں تنہا ہوں؟چنانچہ ایسے ہی افراد اس گیم کا بہترین شکار ہوتے ہیں جو دوسروں کی توجہ کے طالب ہوں۔یہ کھیل اْن کے اندر خود اعتمادی پیدا کرتا ہے اور وہ خود کو مضبوط ظاہر کرنے کے لئے کھیلتے چلے جاتے ہیں قطع نظر اس کے کہ کھیل ان کی جان لے رہا ہے۔ جو بھی افراد اس گیم کو کھیلتے ہیں وہ ضرور کسی نہ کسی ذہنی پریشانی کا شکار ہوتے ہیں چنانچہ یہ گیم ایسے افراد کو نشانہ بناتا ہے اور ایڈونچر کے ذریعے حقیقی زندگی میں درپیش مسائل اور پریشانیوں سے ان کے ذہن کو وقتی نجات دینے کا سبب بنتا ہے۔
مشہور نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر فرانسس جینسن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ٹین ایجر کا دماغ ایسے ڈرائیور کی مانند ہوتا ہے جو گاڑی تو چلا سکتا ہے مگر اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ گاڑی روکنے کے لئے بریک کیسے لگانے ہیں۔ایسے نوجوان جو احساسِ کمتری کا شکار ہوں ، جنہیں لگتا ہوں کہ ان کی اس دنیا میں کوئی حیثیت نہیں، کوئی انہیں پسند نہیں کرتا، کوئی ان سے دوستی نہیں کرنا چاہتا ، وہ اپنی ذات سے کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا سکتے، ان کا وجود ایک اضافی بوجھ ہے اور ان کی زندگی کا کوئی خاص مقصد نہیں ،ایسے نوجوانوں کا ذہن خودکشی کی جانب مائل ہو جاتا ہے کیونکہ یہ وہ واحد راستہ ہوتا ہے جسے اختیار کرکے وہ کچھ نہ کچھ توجہ حاصل کر سکتے ہیں یا ذہنی پریشانی اور مسلسل ڈپریشن سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بچوں کو اس گیم سے بچانے میں سب سے اہم کردار والدین ادا کرسکتے ہیں۔ والدین کو چاہئے کہ بچوں کو آن لائن خطرات سے آگاہ کریں۔ انہیں بتائیں کہ میڈیا اور انٹرنیٹ پر پیش کی جانے والی ہر چیز ان کے لئے اچھی نہیں۔
بچوں میں تنقیدی نقطۂ نظر کو پروان چڑھائیں تاکہ وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی عادت اپنائیں۔ والدین کو کڑی نظر رکھنی چاہئے کہ ان کا بچہ کیا کر رہا ہے؟ اس کی دلچسپیاں کیا ہیں؟ وہ کن دوستوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے؟ وہ انٹرنیٹ پر کس قسم کا مواد دیکھ رہا ہے؟ وہ کتنی دیر موبائل یا انٹرنیٹ پر صرف کر رہا ہے؟ اور اگر اسکی روٹین میں کوئی غیر معمولی تبدیلی آ رہی ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟والدین اپنے بچوں کو وقت دیں اور ان کی دلچسپیوں کے بارے میں گفتگو کریں۔ انہیں اتنا اعتماد دیں کہ وہ اپنے احساسات اور خیالات بے دھڑک شیئر کرسکیں۔ اگر بچہ تنہا رہ رہا ہو ،رو رہا ہوں یا کھانا نہ کھا رہا ہوں تو ڈانٹنے اور غصہ کرنے کی بجائے اس کا سبب تلاش کریں۔ بچوں کو مثبت سرگرمیوں میں شریک کریں۔
والدین کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ سوشل میڈیا خطرناک شکل اختیار کر چکا ہے۔ انہوں نے بچوں کی ضد پر انکے ہاتھ میں نت نئے گیجٹ تو تھما دئیے ہیں لیکن یہ گیجٹ انکے بچوں میں ڈپریشن اور تنہائی پسندی کی بڑی وجہ بن رہے ہیں۔بچے کھلے میدان میں ورزش کی بجائے موبائل یا ٹیب میں نت نئے گیمز کھیلنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ یہ سلسلہ بچوں کی صلاحیتوں کو تباہ کر رہا ہے اور انہیں معاشرتی زندگی سے علیحدہ کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ بحیثیت مسلمان بھی ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ آن لائن گیمز لغو میں شامل ہوتے ہیں۔ اپنے بچوں کی پرورش اسلامی خطوط پر کریں۔ ان کے ذہن میں یہ بات راسخ کر دیں کہ ناامیدی ایک گناہ ہے اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہئے ۔نااُمیدی مسلمان کا شیوہ نہیں۔بچوں کو سمجھائیں کہ انکی ہرخواہش فوری طور پر پوری نہیں ہو سکتی بلکہ ہر کام کے لئے وقت مقرر ہے اور کوئی کام تب ہی ہو سکتا ہے جب قدرت کو منظور ہو۔ اگر کوئی خواہش پوری نہ ہوتو اسے اللہ کریم کی مصلحت جان کر راضی رہنا چاہئے۔ نا امید ہو کر خودکشی جیسی حرام موت سے بچنا چاہئے تاکہ آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم واصل ہونے سے بچا جا سکے۔
Bookmarks