مولانا محمد منصور احمد
کبھی آپ نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتنا خوش قسمت بنایا ہے ۔ ہم ایک طرف شمع ِ رسالت کے ان پروانوں کو اپنا مقتداء اور راہنما مانتے ہیں جنہیں صحابہ کرام ؓ کہا جاتا ہے تو دوسری طرف ہم آسمانِ ہدایت کے اُن تاروں سے بھی ظلمت کدئہ دہر میں روشنی پاتے ہیں ‘ جنہیں اہلِ بیت کرام ؓ کہا جاتا ہے ۔
اگر ایک طرف ہمیں سیدنا صدیق اکبر ، سیدنا فاروق اعظم ، سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہم اور دیگر اصحابِ پیغمبر کی نسبت کا شرف حاصل ہے اور ہم اُنہیں اپنے سروں کا تاج سمجھتے ہیں تو دوسری طرف ہم سیدنا حضرت علی المرتضیٰ ، سیدنا حضرت حسن، سیدنا حضرت حسین ، سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہم،دیگر بناتِ اطہار اور ازواج مطہرات کی برکات بھی سمیٹتے ہیں اور انہیں اپنی آنکھوں کا نور اور دلوں کا سرور جانتے ہیں۔
پھر ایسا کیوں نہ ہو کہ ان دونوں طبقات ‘ خواہ وہ حضرات صحابہ کرام ہوں یا اہل بیت اطہار ‘ ان کا تعلق ہی سرور کائنات ‘ فخرِ موجودات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہے کہ جس کو بھی آفتاب نبوت سے پیار و محبت کا کچھ حصہ نصیب ہو گا ‘ وہ کبھی ان مقدس ہستیوں سے بغض و عداوت کا تعلق رکھ ہی نہیں سکتا ۔ بھلا جن لوگوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتے ناطے کیے ‘ جن کو دنیا و آخرت میں اپنا رفیق و زیر بنایا ‘ جن کو بار ہا مختلف اعزازات ‘ القابات اور عنایات سے نوازا ‘ کیسے ممکن ہے کہ کسی کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور ان کی دشمنی جمع ہو جائے ۔
دنیا میں تو ہم نے یہی دیکھا اور یہی سنا ہے کہ جس سے انسان کو سچی محبت ہو جائے تو اُس کے محبوبوں سے بھی محبت ہو جاتی ہے ۔ محبوب تو بڑی بات ‘ اُس کے گلی کوچوں اور درو دیوار سے بھی محبت ہو جاتی ہے ۔ عربی کا ایک شاعر کہتا ہے :
امر علی الدیار دیار لیلی
اقبل ذاالجدار و ذاالجدار
وما حب الدار شغفن قلبی
و لکن حب من سکن الدیار
( میں جب اپنی محبوبہ کے علاقے سے گزرتا ہوں تو کبھی ایک دیوار کو چومتا ہوں اور کبھی دوسری دیوار کو بوسہ دیتا ہوں ۔ میری اس وارفتگی کی وجہ یہ نہیں کہ ان درودیوار کی محبت میرے دل میں موجزن ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہاں بسنے والوں کی محبت نے میرے دل میں بسیرا کر لیا ہے )
میں حیران ہوتا ہوں اُن لوگوں پر جو ایک طرف تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں لیکن دوسری طرف اُن فرامین نبوت کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں ‘ جو حضرات ِ صحابہؓ اور اہلِ بیت ؓ اطہار کے بارے میں کتب حدیث میں بڑی تفصیل سے آئے ہیں ۔ موقع کی مناسبت سے خاندانِ نبوت کی عظمت اور محبت کے بارے میں چند باتیں عرض کی جاتی ہیںتاکہ ہم لوگ حدود سے تجاوز کر کے گمراہیوں کا شکار ہونے کے بجائے صراطِ مستقیم کو پہچان کر اُس پر چل سکیں۔
آپ نے یہ مقولہ تو سن رکھا ہو گا :
’’ ایں خانہ ہمہ آفتاب است ‘‘
یہ اس وقت بولتے ہیں جب کسی خاندان میں سب بڑے چھوٹے قابل تعریف ہوں اور سب ہی دادو تحسین کے لائق ہوں ۔ یہ جملہ ہزاروں نہیں لاکھوں مرتبہ بولا اور لکھا گیا ہو گا لیکن سچی بات یہ ہے کہ خاندانِ نبوت سے بڑھ کر اس جملہ کا مصداق اور کوئی ممکن ہی نہیں ۔
یہ چار احادیث مبارکہ ایک دوسرے سے ملا کر پڑھیں:
(۱)…عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللّٰہﷺ:انا سید ولد آدم یوم القیامۃ
(حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں قیامت کے دن تمام انسانوں کا سردار ہوں گا ۔ (صحیح مسلم ، کتاب الفضائل ، باب تفضیل نبیناﷺ علی جمیع الخلائق ، رقم الحدیث :2278، طبع دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(۲)…عن الحسن بن علی رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ:انا سید ولد آدم و علی سید العرب
( حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا : میں تمام انسانوں کا سردار ہوں اور علی سارے عرب کے سردار ہیں ) (المعجم الکبیر ، الطبرانی ، عن الحسن بن علی رضی اللہ عنہ ، رقم الحدیث :2749)
(۳)… عن مسروق قال اخبرتنی عائشۃ قالت …ثم قال لی یا فاطمۃ الا ترضین انک سیدۃ نساء ھذہ الامۃ او سیدۃ نساء العالمین فضحکت
( حضرت مسروق رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ مجھے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا (آگے طویل حدیث ہے ، جس کے آخری جملے یہ ہیں) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پھر مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے فاطمہ ! تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تم اس امت کی عورتوں کی سردار ہو گی یا یوں فرمایا کہ تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار ہو گی ۔ یہ سن کر میں ہنس پڑی)( سنن النسائی الکبری ، رقم الحدیث : 7041)
(۴)… عن ابی سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ ﷺ:الحسن و الحسین سیدا شباب اھل الجنۃ
(حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں ) (سنن الترمذی ، ابواب المناقب عن رسول اللہﷺ، باب مناقب الحسن والحسین علیہما السلام ، رقم الحدیث :3775طبع دارالکتب العلمیۃ بیروت)
ان فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ لینے کے بعد کون ہو گا جس کو اہل بیت عظام کی عظمت اور فضیلت میں ذرا بھی شک و شبہ باقی رہ جائے۔بے شک خاندانِ نبوت کے وہ افراد جو آسمانِ ہدایت کے آفتاب و مہتاب بن کر چمکے ، ان کی محبت اور عقیدت ہمارے ایمان کا حصہ ہے ۔
امام اہلسنت حضرت امام محمد بن ادریس شافعی رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایمان افروز اشعار میں حضرات خلفاء ثلاثہ ابو بکر و عمراور عثمان رضی اللہ عنہم کی ثناء خوانی اور مدح اہل بیت کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
ان کان رفضا حب آل محمد
فلیشھد الثقلان انی رافضی
(اگر آل محمد ﷺسے محبت کرنا رفض ہے تو جن و انس گواہ رہیں کہ میں رافضی ہوں)
مزید فرماتے ہیں :
اذا فی مجلس نذکرعلیا
وبسطیہ وفاطمۃ الزکیہ
(جب ہم کسی مجلس میں حضرت علیؓ کا ذکر کرتے ہیں اور حسنین ؓ اور فاطمہ زکیہ کی یاد تازہ کرتے ہیں )
یقال تجاوز وایا قوم ھذا
فھذا من حدیث الرفضیہ
(تو کہا جاتا ہے کہ اے لوگو اس کو چھوڑدو کیونکہ یہ روافض والی باتیں کر رہا ہے )
برئت الیٰ المھین من اناس
یرون الرفض حب الفاطمیۃ
میں اللہ تعالیٰ کے سامنے ایسے لوگوں سے برأت کرتا ہوں جو اولاد فاطمہ سے محبت کو رفض سمجھتے ہیں۔ (دیوان امام شافعی ؒ )
خاندانِ نبوت کے عظیم فرد سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی میدان کربلا میںجب دشمن کی فوج کو مخاطب کرکے متوجہ کر چکے اور عورتوں کو خاموش کرادیا۔ توآپ نے ایک درد انگیز و نصیحت آمیز، بلیغ و بے نظیر خطبہ دیا، جس میں اپنے فضائل کا برملا اظہار کیا ۔حمد و ثنا اور درود وسلام کے بعد فرمایا:
’’اے لوگو! تم میرا نسب دیکھو میں کون ہوں؟
پھر اپنے دلوں میں غور کرو، کیا تمہارے لئے جائز ہے کہ تم مجھے قتل کرو، اور میری عزت پر ہاتھ ڈالو؟
کیا میںتمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کا بیٹا نہیں ہوں؟
کیا میں اس باپ کا بیٹا نہیں ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے؟
کیا سید الشہداء حمزہ میرے باپ کے چچا نہیں تھے؟ کیا جعفر طیار میرے چچا نہیں تھے؟
کیا تمہیں یہ مشہور حدیث نہیں پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور میرے بھائی حسن رضی اللہ عنہ کو سیدا شباب اہل الجنۃ اور قرۃ عین اہل السنۃ فرمایا ہے؟
اگر تم میری بات کی تصدیق کرتے ہو اور واللہ میری بات بالکل حق ہے، میں نے عمر بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا جب سے مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے، اور اگر تمہیں میری بات کا یقین نہیں تو آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن سے اس کی تصدیق ہوسکتی ہے۔
پوچھو جابر بن عبداللہ سے! دریافت کرو ابوسعید یا سہل بن سعد سے! معلوم کرو زید بن ارقم یا انس سے! وہ تمہیں بتلائیں گے کہ بیشک یہ بات انہوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ کیا یہ چیزیں تمہارے لئے میرا خون بہانے سے روکنے کو کافی نہیں۔ مجھے بتلائو کہ میںنے کسی کو قتل کیا ہے جس کے قصاص میں مجھے قتل کررہے ہو؟ یا میں نے کسی کا مال لوٹا ہے یا کسی کو زخم لگایا ہے؟‘‘(الکامل ، ابن اثیر جزری )
بلاشبہ خاندانِ نبوت کا وہ مشک بار تذکرہ ، جو مستند روایات پر مشتمل ہو اور اُس کا مقصد اُن کے نقوش قدم پر چلنے کی دعوت دینا ہو ، بلاشبہ بہت بڑی سعادت ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ من گھڑت رسوم اور بے حقیقت رواج کو چھوڑ کر اصل تعلیمات خاندانِ نبوت سیکھیں اور اُن پر عمل پیرا ہوں ۔
اللہ تعالیٰ حضرات ِ صحابہ کرام، اہل بیت عظام اور ازواجِ مطہرات سب کو ہماری طرف سے بہترین جزائے خیر عطا فرمائے اور ہمارے دلوں کو ان سب کی محبت سے مالا مال فرمائے ۔(آمین ثم آمین)
٭…٭…٭
Bookmarks