_*ایک "آم بیتی"*_
'ہاں جی! آپ یہاں آم لینے آئے ہیں؟' یہ سوال میں نے ان صاحب سے کیا تھا جو ابھی ابھی پھل فروش کی دکان میں داخل ہوئے تھے اور بغور پھلوں کا معائنہ کرنے میں مصروف تھے۔ لیکن انہوں نے میری آواز یا تو سُنی ہی نہیں یا پھر سُنی ان سُنی کردی۔ ظاہر ہے نقار خانے میں طوطی کی آواز سنتا بھی کون ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ مجھے طوطی سمجھ لیں، میں اپنا تعارف کرواتا چلوں کہ میں دور دور تک طوطی نہیں ہوں بلکہ وہ پھل ہوں جس کا طوطی موسم گرما میں چہار سو بولتا ہے۔
ماں باپ نے میری عام سی شکل و صورت دیکھ کر غالباً میرا نام 'عام' رکھا ہوگا جو بعد میں نکھر کر 'آم' بن گیا۔ مجھے 'پھلوں کا بادشاہ' اور 'پھلوں کا راجا' بھی کہا جاتا ہے۔ مگر چھوڑئیے جناب! کہاں کی بادشاہت اور کیسی راجدھانی۔۔۔ یہ سب تو حضرت انسان کے چونچلے بلکہ ڈھکوسلے ہیں۔ اس طرح کی میٹھی میٹھی باتیں تو صرف دل خوش کرنے کے کام آتی ہیں ورنہ مجھے دیکھتے ہی دماغ میں پہلا خیال یا تو میرا اچار ڈالنے کا آتا ہے یا پھر میری چٹنی بنانے کا۔
خود تو گروہوں میں تقسیم ہیں انسان، مجھے بھی بے شمار نام دے رکھے ہیں۔ کچھ نام تو ایسے ہیں گویا میرا تعلق ادب سے ہو اور کچھ نام سن کر ہی مجھے معذوری کا احساس ہونے لگتا ہے۔ کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ اتنے نام رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے، آم کھاؤ پیڑ کیوں گنتے ہو. ابھی میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ وہ صاحب میری جانب بڑھے شاید انہوں نے میرا چہرہ دیکھ کر میرے تخیلات پڑھ لئے تھے۔
آہ! میری کچی عمر تھی، سوچا تھا کچھ دن اور جی لوں گا۔ کیا پتہ تھا کہ مجھے دیکھ کر بھی کسی کا جی للچا سکتا ہے۔ مگر وہ مجھے سرِ آم اٹھا کر اپنے گھر لے گئے۔ جہاں انہوں نے چھری کی مدد سے قتلِ آم کیا۔ میرے زخموں پہ نمک کی بجائے چاٹ مصالحہ چھڑکا اور اتنے چٹور پن سے چٹخارے لیتے ہوئے مجھے کھایا کہ میرے منہ میں بھی پانی بھر آیا۔
Sent from my XT1254 using Tapatalk
Bookmarks