Do What is Right, Not What is Easy ...
اسلام علیکم خان جی کیاحال ہےمزاج کیسے ہیں آپ نے بہت ہی خوبصورت تھریڈ یعنی قرآن کا بیان کیا ہے اور ایک واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے جس کو اللہ تبارک تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے یعنی اللہ تبارک تعالیٰ اس کے راوی ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ہم تک پہنچایا ہے۔
میرے بھایی جیسا کہ آپ نے بیان کیا کہ سب کچھ سکھا دیا ہے تو اس میں تو ایشیا سے لیکر یورپ تک اور قطب شمالی سے قطب جنوبی تک اور پھر جیسا کہ قرآن میں آتا ہے کہ ہر خشک اور تر کا بیان بھی اس کتاب میں مؤجود ہے تو جناب جیسا کہ آدم علیہ السلام نے فرشتوں سے اشیاء کی حقیقت پوچھی اور ملایکہ اس بات کے جواب سے عاجز ہوگے اور پھر آدم علیہ السلام نے جوابات دے دیے تو اس سے میرے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جیسا کہ دنیا کا قاعدہ اور اصول ہے کہ کسی استاد یا کسی سکول میں جا کر سیکھنا پڑتا ہے تو کیا اسطرح اللہ تبارک تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو سکھایا ہوگا جیسے وہ کہتے ہیں کہ کسی بچے کو مدرسے میں قاعدہ بغدادی پڑھایا جاتا ہےتو اس کو کہتے ہیں پڑھو الف تو بچہ کہا ہے الف اور بعض بچے تو ایسے ہوتے ہیں ان کو کہا جاتا ہے کہ پڑھو بچہ الف تو بچہ بھی آگے سے کہتا ہے کہ پڑھو بچہ الف۔۔۔۔۔
ہم اس دور میں سانس لے رہے ہیں کہ اللہ تبارک تعالیٰ نےتقریباً بہت کچھ ہمارے لیے کھول کر رکھ دیا بس پھر بھی کچھ باتوں کے فارمولے ہم کو نہیں دیے جیسے کسی مردہ میں جان پیدا کرنا وغیرہ
میں یہ کہہ رہا تھا کہ یقینناً اور ضرور بالضرور اللہ تبارک تعالیٰ نے وہ علوم آدم، علیہ السلام کے نفس میں منتقل کیے اور ہم کو بھی چاہے ہے کہ ہم بھی علم سیکھنے کی دعا نہ کریں بلکہ اللہ تبارک تعالیٰ سے علم کے منتقل ہونے کی دعا کریں اور اللہ اللہ کرنے والے یہی دعا کرتے ہیں کیونکہ سیکھنے سے اس علوم کی بہت ساری باریکیاں سیکھنے سےرہ جاتی ہیں لیکن منتقل ہونے سے انسان استاد کامل بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔معافی چاہتا ہوں دوستو آپ کا بہت وقت لے لیا ہے۔
اسلام علیکم خان جی بھیا اس سوال کا جواب تو بہت مشکل ہے کیونکہ بعض باتوں کی وسعت بہت بڑی ہوتی ہے اور صفحات چھوٹے اور ویسے بھی یہ ٹاپک بہت لمبا ہے اور جگہ تھوڑی ہے اور مجھے ادھوری بات کرنے کی عادت نہیں ہے ۔
البتہ لگے ہاتھوں آپ کو علم منتقل کرنے کا ایک واقعہ سناتا ہوں جو کہ خواجہ باقی باللہ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کا ہے جو کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے استاد محترم تھے۔ایک مرتبہ خواجہ باقی باللہ کے ہاں کچھ مہمان ذرا دیر سے آیے وقت ایسا تھا کہ کھلانے کو کچھ نہ تھا ۔۔۔آپ پریشانی کی حالت میں گھر واپس جا رہے تھے کہ علاقے کے بھٹیارے نے پوچھا کہ حضرت خیر تو ہے کچھ پریشان لگتے ہیں تو آپ نے عرض کی کہ گھر میں مہمان آیے ہویے ہیں اور کھلانے کو کچھ نہیں ہے تو اس نے کہا کہ جناب یہ کیا بڑی بات اس نے اسی وقت آگ جلایی اور روٹیاں بنانی شروع کردیں اور جو کچھ سرایے میں کھانے پینے کا بچا ہوا تھا وہ پیش کردیا ۔۔۔آپ نے خوش ہو کر کہا کہ مانگ کیا مانگتا ہے ۔۔۔۔۔اس نے کہا جو مانگوں گا آپ دیں گے آپ نے فرمایا ہاں دونگا۔۔۔۔یعنی آپ کا خیال ہوگا کہ یہ دنیا دار آدمی ہے اس نے زیادہ سے زیادہ قیمت ہی مانگنی ہوگی ۔۔۔۔اس نے پھر کہا جو مانگوں آپ دیں گے آپ نے کہا ہاں اس نے دوبارہ کہا آپ نے کہا ہاں دونگا ۔۔۔۔۔۔۔بھٹیارے نے کہا ابھی آپ روٹیاں اور سالن لیکر جایں میں بعد میں حاضر ہوتا ہوں ۔۔۔۔۔بعد میں وہ حاضر خدمت ہو اور کہا کہ جناب آپ نے زبان دی تھی کہ جو مانگوں وہ عطا ہوگا آپ نے کہا ہاں کہا تھا ۔۔۔۔۔۔بھٹیارے نے کہا کہ مجھے اپنے جیسا بنادیں ۔۔۔۔تب جا کر حضرت کو سمجھ پڑی کہ یہ تو بہت ہی مشکل سوال کردیا ہے بھٹیارے نے ۔۔۔۔۔۔۔آپ نے بھٹیارے کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہ مانا تو آپ اس کو پانے ساتھ حجرہ میں لے گے اور اس کو توجہ دی صوفیایے کرام اس قسم کی توجہ کو اتحادی توجہ کہتے ہیں پس جب آپ اور بھٹیارہ حجرہ سے باہر آیے تو دو باقی باللہ تھے ایک ہوشیار تھے اور ایک مدہوش اور تھر تھر کانپ رہا تھا ۔۔۔۔۔کچھ دیر کے بعد اس کی ناک ا ور منہ سے خون جاری ہوگیا اور وہ تڑپ تڑپ کر مرگیا
جناب تاریخ کےا وراق سے ہم نے آپ کے لیے ایک انسان کا علم منتقل کرنے کا کا واقعہ بیان کیا ہے ۔۔۔۔۔
Bookmarks