عرب ریاستوں پر امریکی دباؤ میں اضافہ
جون کے مہینے میں شاہ عبداللہ اور امریکی صدر براک اوباما کے درمیان ملاقات سے امریکہ کو مطلوبہ نتائج نہیں مل سکے
اوباما انتظامیہ نے مشرقِ وسطیٰ میں کچھ دنوں سے اپنی سفارتی سرگرمیاں تیز کر رکھی ہیں اور ساتھ ہی عرب ممالک پر دباؤ بڑھا رہی ہے کہ وہ خطے میں امن کے عمل کو تیز کرنے کے لیے مزید کوششیں کریں۔یہ سرگرمیاں اسرائیل پر کئی ماہ سے جاری دباؤ کے بعد سامنے آئی ہیں جس میں تل ابیب پر یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے کے لیے کہا گیا تھا۔
اوباما انتظامیہ اس مسئلے پر ہر طرف سے ہی پیشرفت ختم ہونے کی وجہ سے کافی دِق ہے۔ لیکن اس کے لیے سب سے زیادہ مایوس کن بات یہ ہے کہ عرب ممالک نے مشرقِ وسطیٰ امن عمل میں عملی طور پر کچھ کرنے کے لیے انتہائی کم رضا مندی دکھائی ہے اور نہ کوئی وعدے کیے ہیں۔
عرب ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے سابقہ تجربات سے تھکے تھکے جو سرکاری موقف اختیار کیے ہوئے ہیں وہ یہ ہے کہ ’مال دکھاؤ تو معاملہ کریں گے‘۔
عرب معاملات پر واشنگٹن میں ایک وکیل نے جن کے مشرقِ وسطیٰ کے فریقوں اور امریکی انتظامیہ سے بھی رابطے ہیں کہتے ہیں: ’شاید صورتِ حال کچھ آگے بڑھ گئی ہوتی لیکن یہ اوباما انتظامیہ کے لیے سب سے بڑی مایوسی کی بات ہے کہ ایسا نہیں ہو سکا۔‘
ایک امریکی اہلکار نے بھی کہا ہے کہ مئی کے مہینے میں ریاض میں صدر براک اوباما اور سعودی شاہ عبداللہ کے درمیان ملاقات توقعات کے برخلاف نتائج پر منتج ہوئی۔ایک واقفِ حال کا کہنا ہے کہ ’صدر اوباما سعودی عرب گئے لیکن انہیں ملا کچھ نہیں۔‘
امریکی محکمۂ خارجہ کے ایک اہلکار نے تصدیق کی ہے کہ صدر اوباما نے حال ہی میں کئی عرب رہنماؤں کو خطوط بھیجے ہیں جس میں انہیں کہا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کی طرف سے امن کے لیے بامقصد مذاکرات کی خاطر فلسطینی اتھارٹی کی حمایت اور اسرائیل کی طرف مثبت اقدامات کریں۔
امریکی انتظامیہ سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک سے اس بنا پر بھی خوش نہیں ہے کہ انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کو مناسب اور کافی مالی امداد نہیں دی اور دو برس قبل اور امداد دینے والے ممالک کی کانفرنس میں ان ممالک نے دو سال قبل جو وعدے کیے تھے اس کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کو کچھ نہیں دیا گیا۔
جمعہ کو امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ دو سو ملین ڈالر کی وہ رقم جس کا مارچ میں وعدہ کیا گیا تھا وہ منتقتل کر رہا ہے اور واشنگٹن نے دوسرے ملکوں سے بھی کہا تھا کہ وہ بھی ایسا کریں۔ اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے گزشتہ تین ماہ سے فلسطینی اتھارٹی پرائیویٹ بینکوں سے قرض لے رہی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کے لیے امریکی ایلیچی جارج مچل پہلے ہی تمام عرب ممالک کا دورہ کر چکے ہیں اور اور مصر، شام اور بحرین میں ملاقاتیں کریں گے۔ اطلاعات کے مطابق وہ عرب ممالک سے اصرار کر رہے ہیں کہ وہ کچھ اعتماد ساز اقدامات پر اتفاق کر لیں تاکہ ایسے اقدامات کے ساتھ ساتھ اسرائیل یہودی بستیوں کی تعمیر منجمد کر دے۔
غربِ اردن میں جارج مچل نے اپنی ملاقاتوں کے بعد کہا کہ مقاصد کے حصول کے لیے صدر اوباما نے کہا ہے کہ اس معاملے میں شریک تمام فریق پر امن مذاکرات اور اس کے نتیجے کو ممکن بنانے کے لیے اقدامات کریں۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ایک اہلکار نے تصدیق کی ہے کہ صدر اوباما نے حال ہی میں کئی عرب رہنماؤں کو خطوط بھیجے ہیں جس میں انہیں کہا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کی طرف سے امن کے لیے بامقصد مذاکرات کی خاطر فلسطینی اتھارٹی کی حمایت اور اسرائیل کی طرف مثبت اقدامات کریں۔
Bookmarks