مال روڈ کے گرد غبار میں ڈھلتی اجڑی شام
ناموں والے شہر کے اندر
میں بے گھر بے نام
بیتے وقت کا بوجھ اُٹھائے
چلتے چلتے جب لاہور کے دل تک پہنچا
دھکے کھاتے میں نے ایک قطار میں ٹکٹ خریدا
اور پھراپنے بوجھ کو پل دو پل کی خاطر
نیچے رکھا
ترسی آنکھیں ننگی آوازوں کے نشے میں گم تھیں
لوگوں کے دکھ انجانے جسموں کی صورت
خوشیاں بن کر رقص میں تھے
میرے دکھ بھی ان جیسے تھے
میں بھی اپنی خوشیاں دیکھ کے خوش تھا
لیکن
مون لائٹ سے باہر رات بہت ویران تھی
شام سے بھی ویران
میری ذات کے اندھیاروں سے
آسمان پہ پھیلی کالی چادر تک ویران
Bookmarks