وہ عہد غم کی کاہشائے بے*حاصل کو کیا سمجھے
جو ان کی مختصر روداد بھی صبر آزما سمجھے
یہاں وابستگی واں برہمی، کیا جانیے کیوں ہیے ؟
نہ ہم اہنی نظر سمجھے نہ ہم اُن کی ادا سمجھے
فریب ِ آرزو کی سہل انگاری نہیں جاتی
ہم اپنے دل کی دھڑکن کو تری آواز ِ پا سمجھے
تماری ہر نظر سے منسلک ہے رشتہ ہستی
مگر یہ دور کی باتیں کوئی ناداں کیا سمجھے
نہ پوچھو عہد الفت کی بس ایک خواب پریشاں تھا
نہ دل کو راہ پر لائے نہ دل کا مدعا سمجھے
Bookmarks