پل اور زندگی ۔۔۔۔
آج انسان مادیت کی کشتی میں سوار ۔۔۔۔ خود غرضی کے چپو چلاتا۔۔۔ فریب کے جال بچھاتا اور لالچ کے موتیوں کی تلاش میں مگن۔۔۔۔ زندگی بناتا نظر آتا ھے۔اور جب لوگوں سے ان کے اس عمل کے بارے میں دریافت کیا جاۓ تو جواب ملتا ھے که سب یهی کرتے هیں۔ اگر حساب کے دن کا پوچھو۔ تو جواب ملتا هے که ابھی بڑی زندگی پڑی ھے۔ بڑھاپے میں توبه کرلیں گے۔ آج هر شخص جو حب الوطنی ھونے کا دعویدار ھے۔ اپنے گریبان میں جھانکے تو بڑا بھیانک منظر پاتا ھے۔ شاید اسی لیے اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجاۓ دوسروں پر تنقید کا سهارا لیتا ھے۔ شاید هر شخص اپنے اپنے فرائض سے غافل اور اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال میں مگن ھے۔ سیاستدان ھے تو اپنی سیاست کو دوام دینے اور اپنی تجوریوں کو بھرنے میں مگن۔ قانون دان ھے تو سب سے زیاده قانون کی دھجیاں اڑاتا اور اپنوں کے لیے قانونی تحفظ کے خول چڑھاتا نظر آتا ھے۔ پولیس میں ھے تو عوام کو تحفظ دینے کی بجاۓ ظلم کے تمام ریکارڈ توڑتا پاتا ھے۔ طالب علم ھے تو غیر تعلیمی سرگرمیوں میں ملوث۔ بس سٹاپوں پر اپنی بهنوں کے لیے ایک مسئله۔ کمره امتحان میں نقل کو اپنا حق و بدتمیزی اور بد تهذیبی کو اپنی تھذیب سمجھتا نظر آتا ھے۔ کسٹم میں هے تو ایسےمال کی تلاش میں ھے جس سے اسے رشوت میسر آسکے۔ غرض هر شخص اپنی ذاتی تسکین کی خاطر قومی مفادات کو داؤ پر لگا کر ملکی معیشت کو کھوکھلا کرتا نظر آتا ھے۔
افسوس!!!!!!۔ یه انسان جو آج مادیت کو اپنی منزل اور زندگی کو دائمی سمجھ بیٹھا ھے۔ شاید زندگی کی اصل حقیقت سے بالکل بے خبر ھے۔ گو همیں اپنی زندگی طویل نظر آتی ھے۔ لیکن کائنات کی حرکت میں اسکی حیثیت ایک پل سے زیاده نهیں۔ آیۓ هم اپنی زندگی کو سائنس کی نظر سے دیکھیں۔ سائنس دانوں کے مطابق اگر هم ایک بهت بڑے کیمرے سے پوری کائنات کی تصویر اتاریں اور هر پانچ هزار سال بعد اسی طرح تصویریں اتار کر دس منٹ کی فلم تیار کرلیں تو کائنات ایک زنده شے کی مانند حرکت کرتی ھوئ محسوس ھوگی۔، یادرھے که انسانی آنکھ کے سامنے ایک سیکنڈ میں 16 تصاویر گزاری جائین تو وه شے حرکت کرتی ھوئ محسوس ھوتی ھے۔
اس لحاظ سے همارے اسی هزار سال کائنات کے ایک سیکنڈ کے برابر بنتے ھین۔ جهاں تک انسانی عمر کا تعلق ھے تو وه 50 یا 60 سال هوتی ھے۔ یه زندگی کائنات کی زندگی کے ایک پل سے بھی کم ھے۔ همارا تو جنم بھی ایک هی هوتا ھے۔ کیونکه همارا اسلامی عقیده بھی ایک هی زندگی پر ایمان رکھتا ھے۔ تو پھر اس پل کی زندگی میں کوئ ایسا کام کیا جاۓ جس کے خلاف همارا ضمیر باربار ملامت کرے۔، حالانکه هماری موت سے خدا همیں روزانه آگاه کرتا ھے۔ بلکه هم هر روز موت کا شکار ھونے کے باوجود اس زندگی کی ناپائداری کو محسوس نهیں کرتے۔ اکثر ذهنوں میں یه سوال ابھر سکتا ھے که یه روزانه کی موت سے کیا مطلب؟۔۔۔۔ یه موت روزانه خواب کی صورت میں همارے سامنے آجاتی هے۔ کیونکه هم جب خواب دیکھ رهے هوتے هیں تو اس وقت وه خواب اپنی جگه ایک زندگی ھوتا ھے، هم اکثر خواب میں اپنی من پسند اشیاء حاصل کرکے مضبوطی سے تھام لیتے هیں که کهیں وه هم سے چھن نه جاۓ۔ مگر دوسرے هی لمحے هماری آنکھ کھل جاتی هے۔ اور همارے خواب کی موت آجاتی هے۔ خواب کی یه موت همیں روزانه هماری زندگی کی موت کا پیغام پهنچاتی ھے۔ جس طرح هم خواب میں خواب ماننے کیلیے تیار نهیں ھوتے۔ لیکن خواب کے ختم ھوتے هی اس کی بے حقیقی کا احساس ھوتا ھے شاید اگلے هی پل۔ یهی بات هم اپنی زندگی کے لیے محسوس کرنے والے هیں۔ همارا فرض هے که زندگی کے اس پل میں خالق حقیقی کے شکر گزار ھوں۔ جس نے همیں ایک جائداد ایک بے عیب انسان اور ایک مسلمان بنایا۔ جب خدا نے همیں تخلیق کیا تو اس وقت همارا کردار شفاف اور دامن پاک تھا۔ مگر افسوس آج سرشرم سے جھکا جاتا ھے۔
هم مادیت کو اپنی لازمی ضرورت سمجھتے هوۓ، اس میں غرق ھوتے جارهے هیں۔ اپنی محرومیون کے لیے رب سے شکوه کرتے هیں شاید همیں معلوم نهیں که هماری ضرورتوں کو همارا رب هم سے کهین بهتر جانتا ھے۔ همیں شاید معلوم نهین که خدا تو هماری ضرورتوں سے اس وقت بھی بخوبی آگاه هوتا ھے جب هماری پرورش ماں کے پیٹ میں ھورهی ھوتی هے۔ اس وقت هم هم نهیں ھوتے لیکن وه خالق مصروف عمل ھوتا ھے۔ دیکھنے کیلیے آنکھیں، چلنے کے لیے پاؤں، سوچنے سمجھنے کے لیے دماغ جیسا کمپیوٹر عطا کرتا ھے۔ همارے اندر ایک دل دھڑکاتا ھے۔ غرض خدا اس وقت هم پر نعمتوں کے دروازے کھول دیتا ھے۔ جب همیں اپنی کسی ضرورت کا کوئ علم نهیں ھوتا۔ افسوس!!!! جس خالق نے همیں اتنی توجه سےبنایا اور همیں زندگی بخشی اسی زندگی میں هم نے خالق کے بتاۓ ھوۓ اصولوں کو روند ڈالا۔ خالق کی عطاء کرده نعمتوں پر شکر گزار ھونے کی بجاۓ هم نے اپنی طاقت پر گھمنڈ کرنا شروع کردیا۔ نه جانے خالق کو اتنا افسوس ھوتا ھوگا اپنی تخلیق کے اس طرز عمل پر۔۔۔۔۔۔ کائنات کھربوں سال سے قائم ھے اور نه جانے کتنے کھربوں سال تک چلے گی۔ اس کائنات کے اس پل میں هم زنده هیں لیکن زندگی کی اهمیت سے ناواقف هیں، کبھی کسی قبرستان سے گزر کر تو دیکھیں کتنے بلنگ بانگ دعوے کرنے والے کتنے مغرور کتنے غاصب کتنے راشی وه لوگ جو دوسروں کو چین نه لینے دیتے تھے۔ اب کسی قدر خاموش اور بے بس منوں مٹی تلے دبے پڑے ھیں۔ ان لوگوں کی قبروں کی خاموش چیخوں کو ذرا غور سے سنیۓ۔ یه بار بار هم سے کهه رهی هیں که خدارا نیکی، عبادت، همدردی، محبت، اخوت، ایثار کے جو کام کرنے هیں کر لیجیۓ۔ کیونکه اگلے هی پل تم بھی اس قدر خاموش اور بے حرکت هوجاؤ گے۔ اور پھر کبھی نیک عمل کے لیے زندگی نه پاسکو گے۔ ذرا سوچۓ تو یه لڑائ یه لالچ یه غرور یه خود غرضی، اور یه مفادات کیسے۔۔۔ آیۓ هم سب عهد کریں که اس پل کو جو همیشه کے لیے صرف یادیں چھوڑ کرجانے والا ھے۔ اس خوبصورتی سے بتا دیں که همارا خالق اپنی اس تخلیق پر ناز کرسکے۔
Bookmarks