مِل ہی جائے گا کہیں دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اِسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے

اِک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں، کوئی کہیں رہتا ہے

جس کی سانسوں سے مُعطر تھے دروبام تیرے
اے مکاں بول کہاں اب وہ مکِیں رہتا ہے

روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بیت گئے
عشق میں وقت کا اِحساس نہیں رہتا ہے

دل فسُردہ تو ہوا دیکھ کے اُس کو لیکن
عمر بھر کون جواں، کون حسِیں رہتا ہے

احمد مشتاق


********************