مری مشکل اگر آساں بنا دیتے تو اچھا تھا

لبوں سے لب دمِ آخر ملا دیتے تو اچھا تھا

میں جی سکتا تھا بس تیری ذرا سی اک عنایت سے

مرے ہاتھوں میں ہاتھ اپنا تھما دیتے تو اچھا تھا

مری بے تاب دھڑکن کو بھی آ جاتا قرار آخر

مرے خوابوں کی دنیا کو سجا دیتے تو اچھا تھا

تمہاری بے رخی پر دل مرا بے چین رہتا تھا

کبھی عادت یہ تم اپنی بھُلا دیتے تو اچھا تھا

کبھی اس جلد بازی کا ثمر اچھا نہیں ہوتا

کوئی دن اور چاہت میں بِتا دیتے تو اچھا تھا

صفی آنسو بھی دشمن بن گئے ہیں دیکھ لے آخر

نہ ان کو ضبط کرتے تم بہا دیتے تو اچھا تھا
~+~+~+~+~+~+~+~+~+~+~