قسمت حد سے پرے،سمے کی ندیوں کے اُس پار گئے۔
تاروں کی طرح ٹوٹے،اک پل میں صدیوں کے اُس پار گئے۔
دل میں بسنے والوں نے کس دل سے یہ گھر ویران کیا
صندل ہاتھوں کی پھولوں سے یاری تھی، بلبل مار گئے۔
دھڑکن سینے میں میرے، خوشبو سانسوں میں بھول گئے
وہ نہ جاتے، سوئے رہتے، مجبوری کے ہاتھوں لاچار گئے۔
نبضیں تھمی سی،آنکھیں جمی سی، دل گُم سُم ھے
ٹُک بیٹھا راہ تَکوں، چھوڑ مجھے،جس راہ کو میرے یار گئے۔
دل پیچھے چھوڑ گئے، جسم گیا روح کا رشتہ جوڑ گئے
زھن میں میری سوچیں ابتک، کاھے کو گئے،بیکار گئے۔
دلہن جی کیوں بے چین ہیں، روتے ھوئے سے نین ہیں
مہکے گجرے، لڑیاں، شاید یادوں کے چُب کچھ خار گئے۔
Bookmarks