زہر کا جام پی لیا جائے
ایک غم ہو تو سہہ لیا جائے
ایک دکھ ہو تو کہہ دیا جائے
یا چڑھا جائے دار پر لوگو
یا دہن اپنا سی لیا جائے
جو سمجھتے نہیں ہمیں اپنا
ان سے شکوہ بھی کیا کیا جائے
چاندنی شب ہے اور وہ پاس نہیں
چاندنی شب کو کیا کیا جائے
پھول بھی خار بن گئے ہوں جہاں
ایسے گلشن میں کیا جیا جائے
ہے یہی چارہ آخری عارف
زہر کا جام پی لیا جائے
Bookmarks