سُوکھے پیڑ سے ٹیک لگائے، پہروں بیٹھا رہتا ہوں
بانہوں میں چہرے کو چُھپائے، پہروں بیٹھا رہتا ہوں
جانے کب وہ آ جائے، اس آس پہ اکثر راتوں کو
آنکھیں دروازے پہ جمائے، پہروں بیٹھا رہتا ہوں
کاش وہی کچھ دُکھ سُکھـ بانٹے، بس اس آس میں اکثر
ہاتھوں میں تصویر اٹھائے، پہروں بیٹھا رہتا ہوں
ماہِ نومبر میں تنہا میں، اُس کی سالگرہ کی شب
ویرانے میں دیپ جلائے، پہروں بیٹھا رہتا ہوں
اُس کی تحریروں کے روشن لفظوں کی تاثیر ہے یہ
دنیا کے سب درد بُھلائے، پہروں بیٹھا رہتا ہوں
Bookmarks