لمحہ لمحہ بکھر رہا ہوں
میں وقت ہوں گزر رہا ہوں
لوگوں کے دل میں درد بن کر
کب سے جانے اتر رہا ہوں
چہرہ چہرہ میری کہانی
آنکھوں آنکھوں پڑھ رہا ہوں
لے آئی زندگی کہاں پر
اپنی آہٹ سے ڈر رہا ہوں
شہروں میں آدمی بہت ہیں
انسان تلاش کر رہا ہوں
حالات پھر بدل گئے ہیں
اور میں کہ پھر سنور رہا ہوں
انجام کی مجھ کو فکر کیا
طوفان ہوں بپھر رہا ہوں
غرقاب ہو گئے معانی
الفاظ کا بھنور رہا ہوں
سہمے سہمے راستوں میں
ڈر ڈر کہ پائوں ہو رہا ہوں
لاکھوں ہی رنگتوں میں اک
بے رنگ ہوں بکھر رہا ہوں
دنیا کتنی بدل گئی ہے
میں بھی اب میں کدھر رہا ہوں
خاموش ہو گیا زمانہ
خود سے کلام کر رہا ہوں
یوں جی رہا ہوں شام جیسے
کوئی گناہ کر رہا ہوں
Bookmarks