ملے تو کیسے ملے منزل خزینہء خواب
کہاں دمشق مقدر کہاں مدینہء خواب
سیاہ خانہ خوف و ہراس میں اک شخص
سنا رہا ہے مسلسل حدیث زینہء خواب
یقیں کا ورد و وظیفہ نہ اسم اعظم عشق
تو پھر یہ کیسے کھلے گا طلسم سینہء خواب
جہاں جہاں کی بھی مٹی ہمیں پسند آئی
وہاں وہاں پہ امانت کیا دفینہء خواب
خروشِ گریہء بے اختیار ایسا کیا
تڑخ کے ٹوٹ گیا رات آبگینہء خواب
شکستِ خوابِ گزشتہ پہ نوحہ خوانی ہوئی
پھر اس کے بعد سجی محفلِ شبینہء خواب
میسر آئی ہے توقیقِ شعر خوش ہوں لیں
نہ پھر یہ سیل رواں ہے نہ یہ سفینہء خواب
انیسؔ و آتشؔ و اقبالؔ سے مسلسل ہے
یہ سادہ کاری، یہ صناعی نگینہء خواب
.
Bookmarks