Jazakallah...
Jazakallah...
راہی آپ جہاد کے فریضہ کے بارے میں قادیانی معلون سے کچھ زیادہ ہی متاثر لگ رہے ہو
جہاد بمعنی قتال فی سبیل اللہ نماز روزے کی طرح فرض ہے اس کا منکر دائر اسلام سے خارج اور اس کو جان بوجھ کر فرض کی صورت میں چھوڑنے والا کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے یہ عقیدہ اہل سنت والجماعت کا تھا اور ہے اور انشاء اللہ رہے گا۔
رہی بات جہاد کے فرض ہونے کی تو برادر اس کو ہمیں آپ سے سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے قران پاک کی پانچ سو چھیاسی آیات کریمہ اور امام المجاہدین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سینکڑوں احادیث ستائیس غزوات ستر سرایہ اور ہزاروں شہید صحابہ کرام یہ فرض سمجھا چکے ہیں۔
کیا آپ کی نظر سے قران پاک کی یہ آیت نہیں گزری
فاقتلو المشرکین حیث و جد تموھم و خذوھم واحصروھم واقعدو لھم کل مرصد (سورہ توبہ آیت نمبر پانچ)۔
ترجمہ :۔ ان مشرکوں کو جہاں پاؤمارو اور پکڑو اور گھیرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو۔
فاذالقیتم الذین کفرو فضرب الرقاب (سورہ محمد آیت نمبر چار)۔
ترجمہ:۔ پس جب تمھارا کافروں سے مقابلہ ہوتو ان کی گردنیں مارو۔
حضرت سعید ابن المسیب اور علامہ ابن شبرمہ جیسے حضرات تابعین کے نزدیک جہاد ہر حال میں فرض عین ہے (کیونکہ جو شخص بغیر جہاد کیئے یا جہاد کی نیت کے مرگیا تو وہ منافقت کے شعبے پر مرتا ہے چونکہ منافقت سے بچنا اور ایمان لانا فرض عین ہے اس لیئے جہاد بھی فرض عین ہے)۔
علامہ قرطبی رحمہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اگر کافر داراسلام میں داخل نہ ہوئے ہوں مگر اس کے قریب آچکے ہوں تب بھی جہاد فرض ہوجاتا ہے اور مسلمانوں کو باہر نکل کر ان کامقابلہ کرنا ہوگا اور یہاں تک لڑیں کہ اللہ کا دین غالب آجائے اورداراسلام اورمسلمان محفوظ ہوجائیں اور کافر ذلیل و خوار ہوجائیں۔
(الجامع الحکام قران)
امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوگے اور قادیانی ملعون کے شر سے بچنے کی کوشش کیا کرو برادر ۔۔ علماء نے جب قادیانی معلون کے کفر کی وجوہات لکھیں تو ایک وجہ یہ بھی لکھی کہ وہ منکر جہاد تھا۔
اللہ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ نصیب فرمائے آمین
ریپلائی کا شکریہ
دیکھو برادر کسی لفظ کے معنی کیا ہیں اور شرعا اس کا کیا مطلب ہے پہلے یہ طے کر لو۔
صلوۃ : جس کے عام معنی ہم نماز لیتے ہیں پر لغوی معنی سلام پڑھنے کے ہیں اب اگر کوئی آذان کے بعدایک جگہ بیٹھ جائے اور سلام پڑھے اور کہے کہ میں تو صلوۃ پڑھ رہا ہوں میں نماز کیوں پڑھوں ۔ صلوۃ فرض ہے۔
زاکوۃکے معنی پاک کے ہیں تو کیا کہنا کیا ہم ایک سال کے بعد اپنے مال و دولت کو دھولیں
اسی طرح صوم ہے اور یہ تو فرائض ہیں
عام دنیاوی الفاظ میں بھی اصل کا اعتبار ہوتا ہے جیسے کہ ایک پیٹی تو ایک پیٹی سے مراد ایک مخصوص رقم ہے نہ کہ ایک لکڑی کی پیٹی یا ایک کھوکھہ
اب آتے ہیں جہاد کے شرعی معنی کی طرف
تمام فقہا کرام کا اس بات پہ اتفاق ہے کہ جہاد کے معنی قتال فی سبیل اللہ اور اس کی معاونت ہے
فقہ حنفی:۔
اللہ رب العزت کے راستے میں قتال کرنے میں اپنی جان مال اور زبان اور دوسری چیزوں سے بھرپور کوشش کو جہاد کہتے ہیں (البدائع والصنائع)۔
نمبر دو؛۔
جہاد کے معنی کافروں کو دین کی دعوت دینا اوراگر وہ قبول نہ کریں تو ان سے قتال کرنا ہے (فتح القدیر)۔
جہاد کی تعریف فقہ مالکی میں
جہاد کے معنی مسلمانوں کا ذمی کافروں سے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیئے قتال کرنا ہے(حاشیہ العدوی ۔ الشرح صغیر)۔
جہاد کی تعریف فقہ شافعی میں
اور جہاد کے شرعی معنی اپنی پوری کوشش سے کافروں کے خلاف قتال کرنا ہے (فتح الباری)
فقہ حنبلی میں تعریف
جہاد کافروں سے لڑنے کو کہتے ہیں (مطالب اولی النہی)
یہ تو تھی جہاد کی شرعی تعریف اب اس کے حکم کی طرف آتے ہیں
امام سرخسری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں
جہاد ایک محکم فریضہ اور اللہ پاک کا ایک قطعی فریضہ ہے جہاد کا منکر کافر ہوگا اور اس سے ضدرکھنے والا گمراہ ہوگا (فتح القدیر)۔
اب قران اور جہاد کو دیکھتے ہیں
قران پاک نے فریضہ جہاد کو اتنے مفصل اور اہمیت بھرے انداز میں بیان کیا کہ محققین کی رائے میں قران پاک میں جس فریضہ کو سب سے زیادہ تفصیل سے بیان کیا گیا وہ قتال فی سبیل اللہ ہی ہے اللہ پاک نے اس فریضہ پر مسلمانوں کو ابھرانے کے لیئے سورتوں کی سورتیں نازل فرمائی ہیں حضرت لاہوری رحمہ اللہ تو یہ فرماگئے کہ جس طرح ہر کتاب کا ایک عنوان ہوتا ہے قران پا ک کا عنوان جہاد فی سبیل اللہ ہے۔
قران پاک میں جہاد فی سبیل اللہ کے چھبیس اور قتال فی سبیل اللہ کے نواسی صیغے استعمال ہوئے ہیں۔
قران پاک کی بعض پوری کی پوری سورتیں جہاد کے احکام ،فضائل اور ترک جہاد کرنے والوں کے بارے میں وعیدوں کے بارے میں نازل ہوئیں جیسے دس رکوع پر مشتمل سورہ انفال جس کا دوسرا نام سورہ بدر ہے سولہ رکوع پر مشتمل سورہ براۃ ۔سورہ حدید میں آلات جہاد کی طرف اشارہ ہے تو سورہ بقرہ سورہ نساء اور سورہ مائدہ میں تفصیل بیان ہوئی ۔
سورۃ احزاب ، سورۃ محمد جس کا دوسرا نام ہی سورۃ قتال ہے صورۃ صف ، صورۃ فتح کے جنگی ناموں سے ہی ان کا اندازہ لگالیں ۔
صورۃ عادیات میں مجاہدین کے گھوڑوں کی قسمیں کھائی گئیں تو صورۃ نصر میں جہاد کے زریعے دین کے عالمگیر انقلاب اور مقبولیت کا بیان ہے۔
بردار میں نے تو ادنی سی کوشش کی ہے کہ آپ کو فریضہ جہاد سمجھا سکوں
اچھامیرا آپ سے اب ایک سوال ہے
جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ آؤ جہاد کی طرف کی آواز لگاتے تھے تو حضرات صحابہ کرام میں سے کسی ایک کے بارے میں کسی ایک واقعے کا بتا دیں (میں خود کو غلط اور آپ کو درست مان کر سلام کرکے یہ بحث ختم کردوں گا)۔ کہ کوئی صحابی آیا ہو اور کہا ہو کہ میں تو الیکشن کرواکے جہاد کررہا ہوں کوئی ایک آیا ہو کہ میں تو کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں انقلاب برپا کرکے جہاد کررہا ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں تو اپنے بیوی بچوں کاپیٹ پالنے کی مشقت کر رہا ہوں حضور میں گھر بیٹھ کر اعلی جہاد کررہا ہوں میدان میں جاکر کافروں سے لڑنے ادنی جہاد ہے میں نہیں کررہا یا کسی ایک نے فرمایا ہو کہ آج میرا نفس کجھور کھانے کو ہو رہا تھا پر میں گوشت کھا کے نفس کے خلاف گھر بیٹھ کے اعلی جہاد کر رہا ہوں
کوئی ایک ایسی مثال دے دو آپ؟
مجھے چڑھتے سورج کی طرح یقین ہے کہ آپ نہیں دے سکتے ہو کیونکہ یہ وہ فریضہ ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود زخمی ہوئے آپ کے چچا کےستر ٹکڑے ہوئے آپ نے اپنے منہ بولے بیٹے کو میدان کارزار میں اتاراحضرات صحابہ کرام شہید ہوئے اور حضرت جبرائیل کی کمان میں فرشتے لڑنےآئے اس پہ نہ تو قادیانی معلون کبھی گرد ڈالنے پہ کامیاب ہوا اور انشاء اللہ نہ کبھی ہوگا کیونکہ اللہ مسلمانوں کی طرف سے خود قتال کرتے ہیں۔
قران گواہ ہے اس کا
برادر شہزاد مجھے آپ کی مثال نہایت پسند آئی۔ آپ کی بات بالکل صحیح ہے اور میں اسکو آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔ جس طرح ہم کو تفسیر سے پتا چلتا ہے کہ نماز کیسا ادا کیا جاتا ہے – کتنے بجے، کب کب جائزنہیں ہے، عورتوں کے لیے کیا فرائض ہیں – ویسے ہی ہمکوپتا چلتا ہے کہ جہاد کیسے کیا جاتا ہے۔ حضرت بلال کی خوش قسمتی تھی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کو بلواسطہ ہدایت دیتے۔ ظاہر سی بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جانتے تھے کہ ان کی امت کی بہتری کس میں ہے۔ لیکن بھائی ہم اس وقت میں نہیں رہتے۔ ہم کو ایسی ہدایت عطا نہیں ہے لیکن ہمارے پاس ٹکنالوجی ہے جس کے ذریعے ہم جلد سے جلد کسی چیز کے معاملات کو دیکھ سکتے ہیں اور ایک دوسرے سے کمیونیکیٹ کر سکتے ہیں۔ ہم کو اس بات کا فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ جہاد تب ہی جائز ہے جب ہر کوئی اس سے متفق ہو۔ جہاد کے قوانین پر منحصر ہونا چاہیے۔ اور جیسا کہ آپ نے بتایا کہ فرائض قوانین تفسیر سے ہی معلوم ہو سکتے ہیں۔
ٹھیک ہے فرض کیجۓ جہاد کا مطلب صرف القتال ہے۔ تو کیا اللہ کی راہ میں دوسری طرح سے کوشش کرنا غلط ہے؟ ان کا بھی مقام ہے اور ان کو بھی کرنا چاہیے۔ اگر آپ کو صرف لفظ سے اعتراض ہے تو پھر میں جس طرح کے عمل کا بیان کر رہا ہوں، اس کو آپ کچھ بھی نام دے دیجیے بس اس کو بھی اہمیت دیں۔ میرا صرف اتنا ہی کہنا ہے۔
میں پھر سے آپ کی بہترین مثال استعمال کروں گا۔ نماز کا ذکر قرآن مجید میں 700 بار ہوا ہے۔ اور فرآئض میں نماز، روزہ، حج، زکات ہیں۔ تو پلیز مجھے بتائیے کہ کوئی اسکے فرامین کو کیوں بیان نہیں کرتا ہے؟ اور بہت سے فرائض کو پس پشت کیوں ڈال دیا جاتا ہے؟
برادر اب آپ بحث برائے بحث کررہے ہو بنا کسی دلیل کے اعتراضات ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ جہاد یا کسی اور فریضہ پر کوئی متفق ہو یا نہ ہو کوئی عمل کرئے یا نہ کرئے کوئی مانے یا نہ مانے وہ فرض فرض ہی ہوگا یہ نہیں کہ لوگ مانیں گے تو فرض فرض ہوگا ورنہ وہ ساقط ہوجائے گا۔ جہاد پر تمام لوگوں کا متفق ہونا اس کے فرض ہونے کی علت نہیں ہے یہ کس نے کہہ دیا کہ لوگ جہاد پہ متفق ہوں تو یہ جائز ہوگا؟
رہی بات یہ کہ جہاد کے معنی تو برادر میں نے یہ کوشش کی ہے کہ جہاد کے شرعی معنی آپ کو بتا سکوں ورنہ تو قران پاک میں دو مقام پہ جہاد ، جہد کا لفظ غیر مسلموں کی طرف سے بھی منسوب ہے اگر جدوجہد کے معنی میں دیکھو گے تو یہ لفظ قران سے غیر مسلموں کے لیئے بھی ثابت ہے پر پر
میرے بھائی فرض کیا ہے
تم پہ روزے فرض کیئے گئے ہیں۔ القران
تم پہ قتال فرض کیا گیاہے۔ القران
اب ہم روزے یا دوسرے کسی فرض میں تو تاویلیں نہیں نکالتے ہیں پر جب جہاد کا ذکر آتا ہے تو تاویلیں آجاتی ہیں۔ کیوں؟ یہ سوال اہم ہے
اور اس کا جواب اسی آیت میں ہے
کہ وہ تم کو (طبعا)برا لگتا ہے
پر کیا یہ گراں فرض ہمارے لیئے بہتر ہے کہ نہیں؟
چنانچہ اسی آیت میں آگے مزید فرمادیا کہ
اور یہ ممکن ہے کہ تم کسی بات کو برا سمجھو اور وہ تمھارے حق میں بہتر ہو اور ممکن ہے تم کسی بات کو اچھا سمجھو اور وہ تمھارے حق میں برا ہو
بات یہ ہے کہ یہ اچھا یا برا ہونا جانتے کون ہیں سو اسی آیت میں مزید فرمادیا
اور اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لہذا میرے بھائی دو باتوں کی ایک بات کیا یہ آیت ہمارے لیئے کافی نہیں کہ جہاد فرض ہے اس کے معنی قتال ہیں یہ کام ہے تو بہت گراں ہم اس کو برا سمجھتے ہیں پر اس میں ہماری بہتری ہے اور یہ اللہ جانتا ہے ابھی ہم نہیں جانتے ہیں۔
اور رہا آپ کی آخری بات کا جواب تو بھائی جان فرض نماز ، روزہ ، حج ،زکواۃ ہی نہیں بلکہ جہاد بھی نماز روزے حج زکواۃ کی طرح فرض ہے ۔ رہا آ پ کا یہ اعتراض کہ ان کے بارے میں کیوں نہیں بیان ہوتا
تو بھائی آپ پھر غلطی کر رہے ہو اکثر یہی فرائض تو ہر جگہ بیان ہوتے ہیں انہی کے بارے میں تو تعلیم ہوتی ہے ان کے بارے میں تو تذکرہ ہوتا ہے جہاد مظلوم فریضہ ہے اس کے بارے میں بات کرنے پہ پابندی ، اس کو ادا کرنے میں مشکلات اس کا نام لینے پہ سزا۔ اور اگر یہ اعتراض کہ مجاہدین ان فرائض کے بارے میں بات نہیں کرتے تو ایک دم بیکار اعتراض ہے غالبا آپ کا کبھی مجاہدین کی نماز اور روزے کے معمولات سے واسطہ ہی نہیں پڑا اس لیئے یہ اعتراض کیا ہے کبھی اعتراض کی بجائے بہ نفس نفیس خود دیکھ لو انشاء اللہ پھر کبھی یہ اعتراض دل میں پیدا نہیں ہوگا ۔
یہاں آپ کی آخری بات کے ظمن میں ایک اور بات یاد آگئی سوچا وہ بھی شیئر کردوں
قران پاک میں نماز کا ذکر سات سو بار ہے پر کہیں بھی تفصیل نہیں کہ کس طرح ادا کی جائے کب ادا کی جائے وغیرہ وغیرہ کافی مسائل ہمیں حدیث سے ملتے ہیں جن کی روشنی میں ہم یہ فرض ادا کرتے ہیں پر جہاد فی سبیل اللہ وہ فرض ہے کہ جس کے بارے میں ایک ایک چیز اللہ پاک نے قران میں کھول کھول کر بیان فرمائی ہے
جنگ کب کرنی ہے۔کس سے کرنی ہے کیوں کرنی ہے۔ جنگ میں کس کو مارنا جائز ہے کس کو چھوڑ دو، قیدوں کا کیا کرنا ہے، مال غنیمت کا کیا کرنا ہے، کافروں کو قتل کرنا ہے تو کیسے کرنا ہے کہاں ضرب لگانی ہے، ہتھیار کیسے ہوں، طاقت کس چیز میں ہے، گھوڑے کیسے ہوں ، مجاہد کا چلنا کیسا ہو، بیٹھنا کیسا ہو، بولنا کیسا ہو ذکر کیسا ہو، مجاہد کے گھوڑے کی قسمیں کھا کے اللہ پاک بیان فرمارہے ہیں قربان جاؤں کہ
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار مسجدنبوی میں دو حضرات صحابہ کرام بیٹھے باتیں کررہے تھے ایک فرمارہے تھے کہ مجھے تو ایمان کے بعد یہ اچھا لگتا ہے کہ مسجد حرام کو آباد رکھوں دوسرے یہ فرمانے لگے کہ مجھے تو ایمان کےبعد حاجیوں کو پانی پلانا محبوب ہے اتنے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ آپ لوگ مسجد میں شور نہ کریں وہ فرماتے ہیں کہ ہم یہ طے نہیں کرپارہے کہ کون سا کام افضل ہے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ لوگ خاموش ہوجائیں نماز کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیں گے۔
آیت نازل ہوجاتی ہے
کیا تم حاجیوں کو پانی پلانےاور مسجد حرام کو آباد کرنے برابر سمجھتے ہو اس شخص کے جو ایمان لایا اور آخرت کے دن پر ایمان لایااور اللہ کےراستے میں جہاد کیا یہ لوگ اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کو راستہ نہیں دیتے ہیں۔ سورۃ توبہ آیت نمبر انیس
بھائی کیا اب بھی کوئی اعتراض ہے۔
Yeh Cheez Shahzad Bhai!
Allah Jazaaykhair De.
Mehboob(Allah) Se Mohabbat Ka Taqaza Yeh Hay K Us K Dushman Se Dushmani Ki Jay.
Magar Hum Dekhtay Hain:
Allah Nay Kuch Logon Ko Apnay Dushman Ki Janain Lenay Denay K Liye Paida Kia Hay
aur
Kuch Logon Ko is Zaleel Dunya Se Nafa Uthanay Ki Khatir Behas Karnay K Liye.
Aur Allah K Ilawah Hamain Koi Hidayat Denay Wala Nahi
Jazakallah
Bookmarks