السلام علیکم
میری یہ غزل سلطانہ بیٹی کے نام
دکھ بھی دیا کسی نے تو ہم مسکرا دیے
پوچھا کسی نے حال تو آنسو نکل پڑے
جب تک رہا وصال رہے غم بھی دوردور
ملنا ہوا محال تو آنسو نکل پڑے
روئے نہ تھے جو عمر میں اک بار بھی کبھی
دیکھا جو میرا حال تو آنسو نکل پڑے
روداد زندگی کی سناتے تو کس طرح
دل کو لیا سنبھال تو آنسو نکل پڑے
مسرور ہو گئے تھے ذرا دیر کے لیے
آیا ترا خیال تو آنسو نکل پڑے
بربادیوں کے اور بھی اسباب تھےمرے
دیکھا ترا کمال تو آنسو نکل پڑے
افسانے سنتے آئے تھے فرہاد و قیس کے
راقم کی دی مثال تو آنسو نکل پڑے
Bookmarks