کاش ہم بھی وہی چڑیاہوتے
ابھی ابھی روٹین کی واک سے واپس آئی ہوں۔گھرکی خاموشی سے باہرہوامیں اُڑتی ہوئی
چھوٹی چھوٹی پیاری پیاری معصوم سی چڑیاں دیکھ کراوراُن کی چہکارسُن کردل توخوش ہوتاہی ہے
پران معصوم چڑیوں میں کس قدراحساس ذمہ داری ہے یہ بات قابلے غورہے
آزادہوامیں اُڑتی ہیں۔صاف سُتھرے گھونسلے بناتی ہیں۔اپنے بچوں کاپالتی ہیں
سردیوں کی آمد سے پہلے ہی خوراک کابندوبست کرلیتی ہیں۔ہم لوگ توفریج ہوتے ہوئے بھی کھانامحفوظ
نہیں کرپاتے اوریہ چھوٹی چھوٹی ننھی چڑیاکئیں دنوں تک بناکسی پریزرویٹرکے کھانامحفوظ کرتی ہیں
بے شک میرے اللہ ہی کی شان ہے
ان چڑیوں میں حیااورشرم کاکیاکہنا
اس بات کوایک واقعہ سے منسوب کرتی ہوں
آپ جان جائیں گئے کہ احساس ذمہ داری اوراللہ کے خوف سے بھرپورہے ان کاننھاسادل
وہ ننھاسادل جودورکسی باروداُگلنے والی بندوق سے بھی ڈرجاتاہے
واقعہ کچھ یوں ہے کہ
جب نمرودنے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کوآگ میں ڈالنے کے لئے آگ بھڑکائی توپاس درخت پر
موجودچڑیاسب دیکھ رہی تھی۔چڑیانے اپنے اللہ کے بندے کی جان بچانے کوپاس دریاسے اپنی چونچ میں
پانی لیااورآگ میں ڈالا۔وہ دن بھریہی کرتی رہی۔جاتی پانی لاتی اورڈال دیتی
اُس ہی درخت پرایک کواّ بھی تھا۔جوسارادن یہ ماجرادیکھ رہاتھا
چڑیادن بھرپانی ڈالتی رہی۔ظاہرسی بات ہے کہ آگ کونابجھناتھا سو نہ بجھی
شام کوچڑیاتھک ہارکراپنی شاخ پراُداس ہوکربیٹھ گئی۔کوّے نے کہا کہ
جب توجانتی تھی کہ آگ نہ بجھاپائے گی تودن بھرکیوں مشقت کی
چڑیا نے معصومیت پرقدرے اطمینان سے کہا کہ
میں جانتی تھی کہ میں یہ آگ کھبی بھی نہ بجھاپاؤں گی مگر جب روزے قیامت
اللہ مجھ سے پوچھے گئے کہ
تیرے سامنے میرے پیارے بندے کوجب جلایاجارہاتھاتو
نے اس معاملے میں کیاکیاتوکم ازکم شرمندہ تونہیں ہوں گی نہ
سُبنحان اللہ
کاش ہم بھی وہی چڑیاہوتے
آپ کے وقت کاشُکریہ
سُلطانہ مُصطفیٰ
'
Bookmarks