umergmail said:
سب پر اللّھ کی سلامتی ھو؛
جناب فاصیح دین صاحب؛
میری آپ سے درخواست ھے۔کہ اگر میری کسی پوسٹ کو ڈلیٹ کرنے کا کھا جائے۔
تو میری اُس پوسٹ میں جو قرآنِ پاک کی آیت کریمہ ھوں اُنھیں ڈلیٹ نہ کیا جائے۔
ِاسی طرح جالندھری صاحب کے تراجم اور تفسیر ابن كثیر کو بھی ڈلیٹ نہ کیا جائے۔
یہ مناسب نھیں ھے۔
بھتر تو یہ تھا کہ میرے دلائل کو دلیل کے ساتھ رد کیا جاتا۔
لیکن آپ کو اختیار ھے۔ آپ ڈلیٹ کرسکتے ھیں۔لیکن قرآنِ پاک،جالندھری صاحب
کے تراجم اور تفسیر ابن كثیر کو ڈلیٹ نہ کیا کریں۔
آپ سے اجازت مطلوب ھے کہ ڈلیٹ کی گئی آیت مقدسہ،جالندھری صاحب کے
تراجم اور تفسیر ابن كثیر کو اپنی کسی دلیل اور رائے کے بغیر پوسٹ کروں،امید ھے کہ
اجازات مل جائے گی۔
آپ نے مجھے پابند کیا ھے کہ ناصر صاحب کے علاوہ میں کسی سے بات نھیں کر سکتا۔
تو یہ پابندی صرف اس تھریڈ کے لیئے ھے ۔؟ یا پھر کسی دوسرے تھریڈ میں اُستاد صاحب،
افتیخارُدّین صاحب،آئی لو صحابہ صاحب اور دیگر احباب سے بھی میں بات نھیں کرسکتا۔؟؟؟
وضاحت مطلوب ھے۔
ناصر صاحب نے موضوع(حیاتِ مسیح اور قرآن پاک) کو چھوڑنے کےلیئے نیا تھریڈ بنا لیا ھے۔
میں نے جو اس تھریڈ میں بار بار اپنے سوالات کے جوابات مانگے۔
بڑے لمبے انتظار کے بعد ناصر صاحب نے اپنے نئے تھریڈ کے آخر میں
باقعدہ میری پوسٹ کے حوالے دے کر دے دیئے۔ لیکن ساتھ ھی آپ نے مجھے پابند بھی کر دیا
کہ میں پھلےموضوع سے ھٹ کر ناصر صاحب کی لمبی تقریر جو کمیوں سے بھر پور ھے اور
جاری ھے کا جواب دوں پھر ھی میں موضوع کے مطابق ناصر صاحب کے دیئے گئے جوابات پر بات کر
سکتا ھوں ۔ اس طرح تو میں ناصر صاحب سے بھی بات جاری نھیں رکھ سکتا۔
اس لیئے میری آپ سے درخواست ھے؛
کہ ناصر صاحب نے اپنے نئے تھریڈ میں جھاں مجھے مخاتب کیا ھے
اور اِس تھریڈ کے حوالے دیئے ھیں اُن پر مجھے اسی تھریڈ میں بات کرنے کی اجازت دی جائے۔
۔
آپ کی اجازت کا منتظر
سب پر اللّھ کی سلامتی ھو؛
جناب فاصیح دین صاحب؛
کافی دنوں سے آپ کے جواب (اجازت) کا انتظار تھا۔
باھر حال خاموشی بھی ایک جواب ھوتی ھے۔
کوئی بات نھیں میں ناصر صاحب کے نئے مضوع (تھریڈ) پر چلا جاتا ھوں۔
اِس تھریڈ کو چھوڑنے سے پھلے چند قرآنِ پاک کی آیت کریمہ،جالندھری صاحب
کے تراجم اور تفسیر ابن كثیر لکھنا چاھتا ھوں۔
أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ 067:016
جالندھری؛
کیا تم اس جو آسمان میں ہے بےخوف ہو کہ تم کو زمین میں دہنسا دے اور وہ اس وقت حرکت کرنے لگے ۔
----------------------------------
أَمْ أَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ۖ فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ 067:017
جالندھری ؛
کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے نڈر ہو کہ تم پر کنکر بھری ہوا چھوڑ دے سو تم عنقریب جان لو گے کہ میرا ڈرانا کیسا ہے ۔
---------------------------
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ 02:144
جالندھری؛ (اے محمد) ہم تمہارا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں ۔
----------------------
الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى 020:005
جالندھری ؛(یعنی خدائے) رحمن جس نے عرش پر قرار پکڑا
---------------------
إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ 007:054
جالندھری؛
کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار خدا ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا ۔ پھر عرش پر ٹھہرا۔
تفسیر ابن كثیر
پھر فرماتا ہے کہ وہ اپنے عرش پر مستوی ہوا ۔ اس پر لوگوں نے بہت کچھ چہ میگوئیاں کی ہیں۔ جنہیں تفصیل سے بیان کرنے کی یہ جگہ نہیں ۔ مناسب یہی ہے کہ اس مقام میں سلف صالحین کی روش اختیار کی جائے ۔ جیسے امام مالک، امام اوزاعی ، امام ثوری ، امام لیث ، امام شافعی ، امام احمد ، امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ وغیرہ ائمہ سلف وخلف رحمہم اللہ ۔ ان سب بزرگان دین کا مذہب یہی تھا کہ جیسی یہ آیت ہے اسی طرح اسے رکھا جائے بغیر کیفیت کے، بغیر تشبیہ کے اور بغیر مہمل چھوڑنے کے، ہاں مشبہین کے ذہنوں میں جو چیز آ رہی ہے اس سے اللہ تعالٰی پاک اور بہت دور ہے اللہ کے مشابہ اس کی مخلوق میں سے کوئی نہیں ۔ فرمان ہے آیت (لیس کمثلہ شئی وھو السمیع البصیر) اس کے مثل کوئی نہیں اور وہ سننے دیکھنے والا ہے ۔ بلکہ حقیقت یہی ہے جو ائمہ کرام رحمتہ اللہ علیہم نے فرمائی ہے انہی میں سے حضرت نعیم بن حماد خزاعی رحمتہ اللہ علیہ ہیں ۔ آپ حضرات امام بخاری کے استاد ہیں فرماتے ہیں جو شخص اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دے وہ کافر ہے اور جو شخص اللہ کے اس وصف سے انکار کرے جو اس نے اپنی ذات پاک کیلئے بیان فرمایا ہے وہ بھی کافر ہے ۔ خود اللہ تعالٰی نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اوصاف ذات باری تعالٰی جل شانہ کے بیان فرمائے ہیں ان میں ہرگز تشبیہ نہیں ۔ پس صحیح ہدایت کے راستے پر وہی ہے جو آثار صحیحہ اور اخبار صریحہ سے جو اوصاف رب العزت وحدہ لاشریک لہ کے ثابت ہیں انہیں اسی طرح جانے جو اللہ کی جلالت شان کے شیان ہے اور ہر عیب و نقصان سے اپنے رب کو پاک اور مبرا و منزہ سمجھے۔
إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ 010:003
جالندھری؛
تمہارا پروردگار تو خدا ہی ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش (تخت شاہی) پر قائم ہوا ۔
تفسیر ابن كثیر؛
تمام عالم کا رب وہی ہے۔ آسمان و زمین کو صرف چھ دن میں پیدا کر دیا ہے ۔ یا تو ایسے ہی معمولی دن یا ہر دن یہاں کی گنتی سے ایک ہزار دن کے برابر کا۔ پھر عرش پر وہ مستوی ہو گیا۔ جو سب سے بڑی مخلوق ہے اور ساری مخلوق کی چھت ہے۔
اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ 013:002
جالندھری؛
خدا وہی تو ہے جس نے ستونوں کے بغیر آسمان جیسا کہ تم دیکھتے ہو (اتنے) اونچے بنائے۔ پھر عرش پر جا ٹھہرا
تفسیر ابن كثیر؛
کمال قدرت اور عظمت سلطنت ربانی دیکھو کہ بغیر ستونوں کے آسمان کو اس نے بلند بالا اور قائم کر رکھا ہے ۔ زمین سے آسمان کو اللہ نے کیسا اونچا کیا اور صرف اپنے حکم سے اسے ٹھرایا ۔ جس کی انتہا کوئی نہیں پاتا ۔ آسمان دنیا ساری زمین کو اور جو اس کے ارد گرد ہے پانی ہوا وغیرہ سب کو احاطہ کئے ہوے ہے اور ہر طرف سے برابر اونچا ہے ، زمین سے پانچ سو سال کی راہ پر ہے ، ہر جگہ سے اتنا ہی اونچا ہے ۔ پھر اس کی اپنی موٹائی اور دل بھی پانچ سو سال کے فاصلے کا ہے ، پھر دوسرا آسمان اس آسمان کو بھی گھیرے ہوئے ہے اور پہلے سے دوسرے تک کا فاصلہ وہی پانچ سو سال کا ہے ۔ اسی طرح تیسرا پھر چوتھا پھر پانچواں پھر چھٹا پھر ساتواں جیسے فرمان الٰہی ہے آیت (اللہ الذی خلق سبع سموات ومن الارض مثلہن الخ یعنی اللہ نے سات آسمان بیدا کئے ہیں اور اسی کے مثل زمین ۔ حدیث شریف میں ہے ساتوں آسمان اور ان میں اور ان کے درمیان میں جو کچھ ہے وہ کرسی کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے کہ چٹیل میدان میں کوئی حلقہ ہو اور کرسی عرش کے مقابلے پر بھی ایسی ہی ہے ۔ عرش کی قدر اللہ عزوجل کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔
قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ 023:086
جالندھری؛
ان سے پوچھو کہ سات آسمانوں کا مالک کون ہے؟ اور عرش عظیم کا (کون) مالک (ہے)۔ ۔ ۔
039:075 وَتَرَى الْمَلَائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ ۖ 039:075
جالندھری؛
تم فرشتوں کو دیکھو گے کہ عرش کے گرد گھیرا باندھے ہوئے ہیں (اور) اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کر رہے ہیں
تفسیر ابن كثیر
جبکہ اللہ تعالٰی نے اہل جنت اور اہل جہنم کا فیصلہ سنا دیا اور انہیں ان کے ٹھکانے پہنچائے جانے کا حال بھی بیان کردیا۔ اور اس میں اپنے عدل و انصاف کا ثبوت بھی دے دیا، تو اس آیت میں فرمایا کہ قیامت کے روز اس وقت تو دیکھے گا کہ فرشتے اللہ کے عرش کے چاروں طرف کھڑے ہوں گے اور اللہ تعالٰی کی حمد و تسبیح بزرگی اور بڑائی بیان کر رہے ہوں گے۔
رَفِيعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ 040:015
[جالندھری] وہ مالک درجاتِ عالی اور صاحب عرش ہے، اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے وحی بھیجتا ہے تاکہ ملاقات کے دن سے ڈراوے ۔
تفسیر ابن كثیر ؛
روز قیامت سب اللہ کے سامنے ہوں گے۔
اللہ تعالٰی اپنی کبریائی اور عظمت اور اپنے عرش کی بڑائی اور وسعت بیان فرماتا ہے۔ جو تمام مخلوق پر مثل چھت کے چھایا ہوا ہے جیسے ارشاد ہے (من اللہ ذی المعارج) الخ، یعنی وہ عذاب اللہ کی طرف سے ہو گا جو سیڑھیوں والا ہے۔ کہ فرشتے اور روح اس کے پاس چڑھ کر جاتے ہیں۔ ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے اور اس بات کا بیان انشاء اللہ آگے آئے گا کہ یہ دوری ساتویں زمین سے لے کر عرش تک کی ہے، جیسے سلف و خلف کی ایک جماعت کا قول ہے اور یہی راجح بھی ہے ان شاء اللہ تعالیٰ۔ بہت سے مفسرین سے مروی ہے کہ عرش سرخ رنگ یاقوت کا ہے جس کے دو کناروں کی وسعت پچاس ہزار سال کی ہے اور جس کی اونچائی ساتویں زمین سے پچاس ہزار سال کی ہے اور اس سے پہلے اس حدیث میں جس میں فرشتوں کا عرش اٹھانا بیان ہوا ہے یہ بھی گذر چکا ہے کہ ساتوں آسمانوں سے بھی وہ بہت بلند اور بہت اونچا ہے وہ جس پر چاہے وحی بھیجے۔
وَالْمَلَكُ عَلَى أَرْجَائِهَا ۚ وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ 069:017
جالندھری؛
اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آینگے اور تمہارے پروردگار کے عرش کو اس روز آٹھ فرشتے اٹھائے ہونگے ۔
--------------------------------------------------
وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ 003:133
جالندھری؛
اور اپنے پروردگار کی بخشش اور بہشت کی طرف لپکو جس کا عرض آسمان اور زمین کے برابر ہے اور جو (خدا سے) ڈرنے
--------------------------------------------------
تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ 070:004
جالندھری؛
جس کی طرف روح (الامین) اور فرشتے چڑھتے ہیں (اور) اس روز (نازل ہوگا) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا
-------------------------------------------
جناب فاصیح دین صاحب؛
اور کیا میں کسی دوسرے تھریڈ میں اُستاد صاحب،
افتیخارُدّین صاحب،آئی لو صحابہ صاحب اور دیگر احباب سے بھی بات نھیں کرسکتا۔؟؟؟
وضاحت مطلوب ھے۔
--------------------------------------------
باقی ناصر صاحب کے نئے تھریڈ کا جواب میں اُن کے نئے تھریڈ میں ترتیب وار دے دوں گا۔
Bookmarks