سعادت حسن منٹو صاحب کیا لکھاری ہیں
ماشاءاللہ
لکھتے ایسا تھے کہ پڑھنے والا خود کو تحریر سے جُدا نہیں کر سکتا تھا
جس جس نے اپن کو پڑھا ہے
یقیناً اُن کا فین ہو گیا ہو گا
میں نے آپ نیٹ سے یہ دلچسب
قصہ اپن ہی ک الکھا ہوا پڑھا تو سُچا اپ سب کے ساتھ شئیر کر دوں
ایک ایسا ہی قصہ ناہید پہلے بھی ہم سب کے ساتھ شئیر کر چُکیں ہیں
لنک
اُمید ہے یہ بھی آپ سب کو پسند آئے گا
تحریر ملاحظہ فرمائیں
شکریہ
سُلطانہ مصطفیٰ
ٹیٹوال کا کتّا
کئی دن سے طرفین اپنے اپنے مورچے پرجمے ہوئے تھے دن میں ادھر اور ادھر سے دس بار فائر ہو جاتے جن کی آواز کے ساتھ کوئی انسانی چیخ بلند نہیں ہوتی تھی ۔ موسم بہت خوشگوار تھا ۔ ہوا خودروپھولوں کی مہک میں بسی ہوئی تھی ۔ پہاڑیوں کی اونچائیوں اور ڈھلوان پر جنگ سے بہت بے خبر قدرت اپنے مقررہ اشغال میں مصروف تھی ۔ پرندے اسی طرح چہچہاتے تھے ' پھول اسی طرح کھل رہے تھے اور شہد کی سست رو مکھیاں اسی پرانے ڈھنگ سے ان پر اونگھ کر رس چوستی تھیں ۔ جب پہاڑیوں میں کسی فائر کی آواز گونجتی توچہچہاتے ہوئے پرندے چونک کراڑنے لگتے ' جیسے کسی کا ہاتھ ساز کے غلط تارسے جا ٹکر ایا ہے اور ان کی سماعت کو صدمہ پہنچانے کا موجب ہوا ہے ۔ ستمبر کا انجام اکبوتر کے آغاز سے بڑے گلابی انداز سے بغل گیر ہو رہا ہے ایسا لگتا تھا کہ موسم گرما اور سرمامیں صفائی ہو رہی ہے ۔ نیلے نیلے آسمان پر دھنکی ہوئی روئی ایسے پتلے پتلے اور ہلکے ہلکے بادل یوں تیرتے تھے ۔ جیسے اپنے سفید بجروں میں تفریح کر رہے ہیں ۔
پہاڑی مورچوں میں دونوں طرف کے سپاہی کئی دن سے بڑی کوفت محسوس کر رہے تھے ' کہ کوئی فیصلہ کن بات کیوں وقوع پذیر نہیں ہوتی۔ اکتا کران کا جی چاہتا تھا کہ موقع بے موقع ایک دوسرے کو شعر سنائیں ۔ کوئی نہ سنے توایسے ہی گنگناتے رہیں ۔ پتھریلی زمین پر اوندھے یا سیدھے لیٹے رہتے تھے ۔ اور جب حکم ملتا ایک فائر کر دیتے تھے ۔ دونوں سیدھے لیٹے رہتے تھے ۔ اور جب حکم ملتا ایک فائر کر دیتے تھے ۔ دونوں کے مورچے بڑی محفوظ جگہ تھے ۔ گولیاں پوری رفتار سے آتی تھیں اور پتھروں کی ڈھال سے ٹکرا کروہیں چت ہو جاتی تھیں ۔ دونوں پہاڑیاں جن پر مورچے تھے قریب قریب ایک قدکی تھیں ۔ درمیان میں چھوٹی سی سبز پوش وادی تھی ۔ جس کے سینے پر ایک نالہ موٹے سانپ کی طرح لوٹتا رہتا تھا ۔
ہوائی جہازوں کا کوئی خطرہ نہیں تھا ۔ تو پین ان کے پاس نہ ان کے پاس ' اس لئے دونوں طرف بے خوف و خطر آگ جلائی جاتی تھی ۔ ان سے دھوئیں اٹھتے اور ہواؤں میں گھل مل جاتے ۔ رات کو چونکہ بالکل خاموشی ہوتی تھی ۔ اس لئے کبھی کبھی دونوں مورچوں کے سپاہیوں کو ایک دوسرے کے کسی بات پر لگائے ہوئے قہقہے سنائی دے جاتے تھے۔ کبھی کوئی لہرآکلے گانے لگتا تو اس کی آواز رات کے سناٹے کو جگادیتی ۔ ایک کے پیچھے ایک باز گشت صدائیں گونجتیں تو ایسا لگتا کہ پہاڑیاں آموختہ دہرا رہی ہیں۔
چائے کا دور ختم ہو چکا تھا پتھروں کے چولہے میں چیڑہ کیہلکے پھلکے کوئلے قریب قریب سرد ہو چکے تھے ۔ آسمان صاف تھا موسم میں خنکی تھی ۔ ہوامیں پھولوں کی مہک نہیں تھی جیسے رات کو انہوں نے اپنے عطردان بند کر لئے تھے ۔ البتہ چیڑھ کے پسینے یعنی بیروزے کی بوتھی مگر یہ بھی کچھ ایسی ناگوار نہیں تھی ۔ سب کمبل اوڑھے سو رہے تھے مگر کچھ اس طرح کہ ہلکے سے اشارے پر اٹھ کر لڑنے مرنے کیلئے تیار ہو سکتے تھے جمعدار ہر نام سنگھ خود پہرے پر تھا ۔ اس کی اسکوپ گھڑی میں دو بجے تو اس نے گنڈاسنگھ کو جگایا اور پہرے پر متعین کر دیا ۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ سو جائے پر جب لیٹا تو آنکھوں سے نیند کو اتنا دور پایا جتنا کہ آسمان کے ستارے تھے ۔ جمعدار ہر نام سنگھ چت لیٹا ان کی طرف دیکھتا رہا ۔۔۔۔۔۔ اور گنگنانے لگا جتی لینی آن ستاریاں والی ۔۔۔۔۔۔ ستاریاں والی۔۔۔۔۔۔ دے ہر نام سنگھا ہویارا' بھاویں تیری ہٹی وک جاوے
اور ہر نام سنگھ کو آسمان پر ہر طرف ستاروں والی جوتیاں بکھری نظرآئیں ۔ ستارے جو جھلمل کر رہے تھے۔
جتی لے دواں ستاریاں والی ۔۔۔۔۔۔ ستاریاں والی ۔۔۔۔۔۔ نی ہر نام کو رے
یہ گا کر وہ مسکرایا پھر یہ سوچ کر کہ نیند آئے گی اس نے اٹھ کر سب کو جگا دیا ۔ ناز کے ذکر نے اس کے دماغ میں ہلچل پیدا کر دی تھی ۔ وہ چاہتا تھا کہ اوٹ پٹانگ گفتگو ہو جس سے اس بول کی ہر نام کوری کیفیت پیدا ہو جائے ۔ چنانچہ باتیں شروع ہوئیں مگراکھڑی اکھڑی رہیں ۔ بنتا سنگھ جوان جو سب سے کم عمر تھا اور خوش آواز تھا ایک طرف ہٹ کر بیٹھ گیا ۔ باقی اپنی بظاہر پر لطف باتیں کرتے اور جمائیاں لیتے رہے ۔ تھوڑی دیر کے بعد بنتا سنگھ نے ایک دم اپنی پر سوز آواز میں ہیر گانا شروع کر دی ۔
ہیر آکھیا جو گیا جوٹھ بولیں کون روٹھڑے یار مناؤندائی
ایسا کوئی نہ ملیاں میں ڈھونڈتھکی جہیڑا گیاں نو موڑ لیاؤ ندائی
ایک باز توں کانگ نے کونچ کھوئی دیکھاں چپ اے کہ کرلاؤندانی
دکھاں والیاں نو گلاں سکھ دیا ں ' نی قصے جوڑ جہان سناؤ ندائی
پر تھوڑے وقفے کے بعد اس نے ہیر کی ان باتوں کا جواب رانجھے کی زبان میں گایا۔
جیہڑے بازتوں کانگ نے کونج کھوئی صبر شکر کرباز فنا ہویا
اینویں حال ہے اس فقیر دانی دھن مال گیاتے تباہ ہویا
کریں صدقے تے کم معلوم ہووے تیرا رب رسول گواہ ہویا
دنیا چھڈ اداسیاں پہن لیاں سید وارثوں ہن وارث شاہ ہویا
بنتا سنگھ نے جس طرح ایک دم ہیر گانا شروع کیا تھا اسی طرح وہ ایک دم خاموش ہو گیا ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خاکستری پہاڑیوں نے بھی اداسیاں پہن لی ہیں ۔ جمعدار ہر نام سنگھ نے تھوڑی دیرکے بعد کسی غیر مرئی چیز کو موٹی سی گالی دی اور لیٹ گیا ۔
Bookmarks