,.
Allah America ko Tabah Kare
sabit ho chuka ke hamare oper musallat log dajjal ke cheley aur unke khadim hain.... sirf 1 nahi HAZARON AMERICAN TERRORISTS yahan phir rahe hain.. ais kar rahe hain
يہ بات توجہ طلب ہے کہ کچھ راۓ دہندگان بعض مغربی اخبارات ميں شائع ہونی والی رپورٹس ميں سے بغير کسی نام کے امريکی عہديدران کے حوالے سے پيش کيے جانے والے بيانات کے منتخب حصوں کو محض اس بنياد پر اجاگر کر رہے ہيں کيونکہ اس سے ان کے مخصوص خيالات اور طرز فکر کو تقويت ملتی ہے۔ ليکن اسی اصول کو اس وقت نظرانداز کر ديا جاتا ہے جب امريکی صدر سميت حکومت کے اعلی ترين عہدوں پر فائز افراد متعدد بار سرکاری طور پر بيانات کے ذريعے يہ باور کرواتے ہيں کہ لاہور میں گرفتار ہونے والے امريکی کو سفارتی استثنی حاصل ہے۔
اگر بغير کسی نام اور بغیر کسی شناخت کے کسی امريکی عہديدار کا بيان بعض تجزيہ نگاروں اور راۓ دہندگان کے نزديک ناقابل ترديد ثبوت ہے تو پھر اسی اصول کے تحت جانے مانے اور شناخت شدہ اعلی امريکی عہديداروں، امريکی سفارت خانے اور اسٹيٹ ڈيپارٹنمٹ کی جانب سے سفارتی استثنی کے حوالے سے موقف اور بيانات کو بھی تسليم کيا جانا چاہيے۔
امريکی حکومت نے شروع دن سے يہ موقف اختيار کيا ہے کہ گرفتار ہونے والے امريکی شہری کو سال 1961 کے سفارتی تعلقات سے متعلق ويانا کنونشن کے تحت سفارتی استثنی حاصل ہے۔ جب وہ پاکستان آۓ تھے تو امريکی حکومت نے تحريری طور پر حکومت پاکستان کو مطلع کيا تھا کہ ان کی تعنياتی اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں تکنيکی اور انتظامی سٹاف کی حيثيت سے سفارتی کيٹيگری ميں سفارت کار کی حيثيت سے کی گئ ہے۔ ويانا کنونشن کے آرٹيکل 37 کے تحت سفارت خانے کے تکنيکی اور انتظامی عملے کو مکمل طور پر قانونی کاروائ سے استثنی حاصل ہوتی ہے اور کنونشن کے تحت انھيں قانونی طور پر گرفتار يا قيد نہيں کيا جا سکتا۔
ذوالفقار – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
MULLA ABDUL SALAM ZAEEF ke time ye qanoon kidhar gaya tha??? jub ke wo pak mein they aur they bhi sifartikar jabke ye deshat gard to hai hee deshat gard aur agent
Ab ball hamare court main hai,
dekhte hai, as a nation ham kya karte hain?
hamaray hukmran un kay sath milay huay hay puree generation tabahee kay dhanay pay hay media bi america kay sath mila hua hay
Kaheen aisa tu nahi keh ye aadmi BLACK WATER k liey kaam karta ho aur es ko hide karny k liey es ko CIA ka parday mein paish kia ja raha hy?
thankx fie sahring
ایک طرف لمبی لمبی امیدیں
دوسری طرف کل نفس ذائقۃ الموت
jee bahi aap nay bilkul teek kaha yeh derasaal black water k ley hi kaam karta haai or tah b or ab cia k ley kaam karta haai yeh woh keh rahay haai phir derasaal yeh ek deshatgard haai ..... or pakistan mai jaga jaga tabhi karna chahata haai or iss k khie or b sathi abhi moojaad haai jo key chuup gay haai govt janti haai mager kuch nahi kar sakti or aap nay yeh mehsoos nahi kaya jub say yeh grifttar howa haai punjab or degaar ellaqow mai koie bomb blast nahi hoya kaya yeh koie saboot nahi haai
Mullah Abdul Salam Zaeef Bhi Emarat-e-Islami Afghanistan K Ambassadar The?
Phir In Ko Tum Log Kiyon Agwa Kar K Le Gaye?
Un Par 7 Saal Tak Guantanamo Be May Torture Kiyon KI Gia?
He Jawab Tumhare Paas?
Asadul Islam Shaikh Usama Bin Ladin Aise Hi Moqay Pe Kehte Hain:
********Ab Baat Hogi Tou Talwar Ki Zaban e Hogi *********
ان دونوں کيسيز ميں کوئ مماثلت يا قدر مشترک نہيں ہے۔ سب سے پہلی بات تو يہ ہے کہ امريکی حکومت نے افغانستان ميں کبھی بھی طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی حمايت سے افغانستان ميں ہونے والی فوجی کاروائ کے بعد افغانستان ميں طالبان کی فعال حکومت کا کوئ وجود نہيں تھا۔
يہ بات نہيں بھولنی چاہيے کہ جس حکومت کی جانب سے کسی سفارت کار کی سفارتی حيثيت کا تعين يا منظوری دی جاتی ہے جب اس حکومت کا اپنا وجود ہی نہ رہے تو اس سفارتی حيثيت کی بھی کوئ اہميت باقی نہيں رہ جاتی۔
ايک جنگی صورت حال يا فوجی غلبے کی صورت ميں جينيوا کنونشن کے سفارتی استثنی سے متعلق قوانين ايک ايسا قانونی معاملہ ہوتا ہے جس پر عمل درآمد ايک سواليہ نشان بن جاتا ہے۔ جب سال 1990 ميں عراق نے کويت پر قبضہ کيا تھا تو کويت ميں موجود غیر ملکی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند کرنے کے ليے اقدامات کيے گۓ تھے۔
جہاں تک ملا ضعيف کا تعلق ہے تو پاکستان ميں ان کی گرفتاری کے وقت انھيں سفارتی استثنی حاصل نہيں تھی کيونکہ افغانستان ميں طالبان کی وہ حکومت ہی موجود نہيں تھی جو انھيں يہ سہولت فراہم کر سکتی۔ يقينی طور پر پاکستان ميں گرفتار امريکی سفارت کار کے کيس ميں صورت حال يہ نہيں ہے۔
اس کے علاوہ يہ بات بھی غور طلب ہے کہ امريکی سفارت کار کے برعکس جو کہ اپنی جان بچانے کے حوالے سے ايک واقعے ميں ملوث ہوۓ، ملا ضعيف ايک ايسی حکومت کے اعلی عہديداروں کے ساتھ گہرے مراسم رکھتے تھے جو عالمی دہشت گردوں اور مجرموں کو پناہ دينے اور ان کی حمايت کرنے کے جرم ميں شامل تھے۔ يہ ايک ايسی حقيقت ہے جسے اقوام متحدہ نے نہ صرف يہ کہ تسليم کيا بلکہ سرکاری طور پو طالبان کی حکومت کو سيکورٹی کونسل کی کئ قراردادوں کے ذريعے باور بھی کروايا۔
"کومبيٹنٹ اسٹيٹس ريوو" ٹريبيونل کے سامنے الزامات کے حوالے سے جو دستاويز پيش کی گئ تھی اس کے مطابق
گرفتار ہونے والا طالبان کا رکن تھا۔
گرفتار ہونے والے شخص نے يہ خود تسليم کيا تھا کہ اس نے سال 1996 ميں طالبان میں شموليت اختيار کی تھی۔
طالبان کے لیڈر کی جانب سے گرفتار ہونے والے شخص کو اقغانستان کے سنٹرل بنک کا صدر مقرر کيا گيا تھا۔
اس کے علاوہ طالبان کے ليڈر کی جانب سے گرفتار ہونے والے شخص کو افغانستان کی معدنيات اور انڈسٹری سے متعلق وزارت ميں ڈپٹی وزير کے عہدے پر فائز کيا گيا تھا۔
اس کے علاوہ گرفتار ہونے والے شخص کو طالبان حکومت نے کابل ميں ٹرانسپورٹ کی وزارت پر فائز کيا جہاں پر 3 ماہ کام کيا۔
گرفتار ہونے والے شخص کا آخری عہدہ پاکستان ميں طالبان حکومت کے سفير کی حيثيت سے تھا جہاں پر 18 ماہ تک دسمبر 2001 ميں اپنی گرفتاری تک کام کيا۔
طالبان کی تحريک کے ابتدائ دنوں میں طالبان اور القائدہ کے فعال کمانڈرز افغانستان کے شہر کابل اور گرد ونواح کے علاقوں سے گرفتار ہونے والے شخص کو طالبان کے "ڈپٹی ڈيفنس" کی حيثيت ميں رپورٹ کيا کرتے تھے۔
پاکستان ميں طالبان کے سفير کی حيثيت سے ان کے طالبان کی سينير ليڈرشپ کے ساتھ قريبی تعلقات تھے۔
ذوالفقار – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
Bookmarks