بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مخصوص / متعین ذکر کی بدعت
کوئی بھی عبادت بغیر ثواب کے نہیں ہو سکتی۔ اور ثواب / عذاب کا تعین اللہ کی کتاب یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قولِ مبارک سے ثابت ہونا ضروری ہے ورنہ وہ مشہور حدیث لاگو ہوگی :
من احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد
جس نے ہمارے اس دین میں ( اپنی طرف سے ) کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ، تو وہ مردود ہے ۔
(صحیح بخاری)
علامہ شاطبی نے "الاعتصام" میں لکھا ہے کہ :
عبادات کے امور کو شارع علیہ السلام نے مقرر کیا ہے۔ لہذا عبادات کی اصل "حرمت" ہے۔
(بحوالہ : الاعتصام ، ج:1 ، ص:301)
ایک مکتب کے معروف عالمِ دین ، مولوی غلام رسول سعیدی بھی علامہ شاطبی کے اصول کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
اپنی عقل سے عبادت کے طور طریقے وضع کرنا جائز نہیں ہے ، لوگ اپنی عقل سے عبادت کے طریقے وضع کر لیتے ہیں ، پھر اس کی تائید میں دلائلِ شرعیہ تلاش کرتے ہیں اور جو ان کے بنائے ہوئے طریقے کے مطابق عبادت نہ کریں اس کو لعنت ملامت کرتے ہیں ، اسی کا نام احداث فی الدین اور بدعتِ سیئہ ہے ۔ عبادت صرف اسی طریقہ سے کرنی چاہئے جس طریقہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کی ہے اور جس طرح آپ نے ہدایت دی ہے اور جماعت صحابہ کا اس پر عمل رہا ہے۔
(بحوالہ : تبیان القرآن ، ج:1 ، ص:751)
دوسری بات یہ کہ
عبادت کے کسی نئے طریقے کو ’شرعی بدعت‘ قرار نہ دینے کے لیے کیا صرف اتنا کافی ہے کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ
قرآن و سنت میں اس کی اصل ہے یا نہیں؟
صرف اصل کا ہونا اگر کافی ہوتا تو پھر ذرا یہ واقعہ بھی ملاحظہ کر لیا جائے :
حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) ایک دفعہ کوفہ کی ایک مسجد میں داخل ہوئے۔ آپ نے دیکھا کہ لوگ مختلف حلقوں میں بٹے ہوئے تھے اور ہر حلقہ میں ایک آدمی کھڑا تھا جو ان سے کہتا : سو (100) بار سبحان اللہ کہو۔
لوگ سبحان اللہ کہنا شروع کر دیتے ۔
پھر وہ آدمی کہتا : سو (100) بار الحمد للہ کہو۔ تو لوگ الحمد للہ کہنا شروع کر دیتے۔
پھر وہی آدمی کہتا : سو (100) بار اللہ اکبر کہو۔ تو لوگ اللہ اکبر کہنا شروع کر دیتے۔
عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) نے ان کو اس حالت میں دیکھ کر کہا :
اللہ کی قسم ! کیا تم ایسے دین پر ہو جو اللہ کے رسول سے زیادہ ہدایت والا ہے ؟ یا تم گمراہی کے دروازے کھول رہے ہو؟
(سنن الدارمی ، كتاب المقدمة ، باب في كراهية اخذ الراي ، حدیث : 206 )
دیکھ لیجئے کہ سبحان اللہ ، الحمد للہ اور اللہ اکبر کے وظیفے کرنا مسنون عمل ہے یعنی دین میں ان کی اصل موجود ہے۔
لیکن اپنے طور پر جو شکل ان لوگوں نے اختیار کی وہ دورِ نبوی میں نہیں تھی لہذا اس عظیم ترین صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) نے اس کو گمراہی قرار دیا۔ کیونکہ اذکار کا یہ طریقہ مسنون نہیں بدعیہ تھا۔
اسی طرح اگر کوئی کہے کہ اتنے یا اتنی بار یہ یہ الفاظ دہرائیں اور اس کو اپنا معمول بنائیں تو ان شاءاللہ ہر قسم کی پریشانی دور ہو جائے گی ۔۔۔
تو یہ راستہ دراصل بدعت کی گمراہی کی جانب لے جاتا ہے جیسا کہ جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:
کیا تم گمراہی کے دروازے کھول رہے ہو؟
کسی ذکر کی تعداد مخصوص کرنا یا اس طریقہ کو معمول بنانا اور پھر یہ یقین رکھنا کہ اس سے کسی قسم کی کوئی پریشانی دور ہوتی ہے ۔۔
Bookmarks