جناب عرفان محمودبرق جوروزنامہ تبصرہ کے ایڈیٹربھی ہیں‘چندسال قبل انہوں نے اوران کے خاندان کے کئی افراد نے پوری تحقیق اورمطالعہ کے بعدقادیانیت چھوڑکراسلام قبول کرلیا۔اب ان کی زندگی قادیانیت کے کفریہ وباطل عقائدکی نقاب کشائی اورعقیدہ¿ ختم نبوت کے فروغ وابلاغ کے لئے وقف ہے۔ان کاکہناہے کہ مسلمان علماءوزعماءاورمحققین نے قادیانیت اورمرزاقادیانی کے بارے میں جوکچھ لکھا‘انہوں نے حقیقتاً انہیں اس سے زیادہ کاذب اورزندیق پایا کیونکہ ان کے پاس قادیانی ذرّیت کی اصل کتابیں موجودہیں جبکہ نئے ایڈیشنوں سے وہ قابل اعتراض باتیں نکال چکے ہیں۔ آئیے گھرکے اس بھیدی کی زبانی قادیانی فتنے سے آگاہی حاصل کریں۔(ادارہ) ہم ہر اک شوخ کا اندازِ نظر جانتے ہیں ہم نے اک عمر گزاری ہے صنم خانے میں کسی دوست نے مجھ سے سوال کیاکہ جناب!میں نے سناہے کہ قادیانیوں کاجھوٹانبی مرزاقادیانی شراب پیتاتھا۔ گالیاں بکتاتھا‘زناکرتاتھا‘جھوٹ بولتاتھا‘غیرعورتوں سے رات کی تنہائیوں میں اپنی ٹانگیں دبواتاتھا‘جوتی الٹی پہنتاتھا‘ قمیض کے بٹن اُلٹے بند کرتاتھا‘آنکھ سے کانا‘ ہاتھ سے ٹنڈا‘ عقل سے پیدل‘سوچ سے جاہل‘حرکات سے پاگل تھا‘توپھرکیا وجہ ہے کہ عقل کے اندھے‘سوچ کے گندے قادیانی نہ صرف خوداُسے نبی ورسول تسلیم کرتے ہیں بلکہ مسلمانوں میں بھی اس کی بناسپتی نبوت کاڈھول پیٹتے ہیں جس کے باعث اکثرسننے میں آتا ہے کہ فلاں مسلمان قادیانیت کے گٹرمیں گرگیا ‘فلاں گھرانے نے مرزائیت کے تیزاب کواپنے لبوں کی زینت بنالیا‘ فلاں نوجوان نے اپنے ایمان کی لگامیں ان اندھوں کے سپرد کردیں۔ یہ بڑی حیران کن اورفکرانگیز بات ہے۔آخر اس کی کیاوجہ ہے؟مسلمان کیسے ان کے جال میں پھنستے ہیں اورایک بداخلاق ‘کانے‘ ٹنڈے کوکیسے نبی مان لیتے ہیں؟ میں نے اُسے جواب دیاکہ جب قادیانی شکاری لوگوں کے ایمان کاشکار کرنے کے لئے نکلتاہے تووہ اپنے ساتھ ایک شکار والابیگ رکھتاہے جس کی مختلف جیبوں میں شکارکرنے کے مختلف آلات ڈالتاہے ۔ وہ ایک جیب میں اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی تصاویر کاالبم ڈالتاہے‘دوسری جیب میں بلینک چیک کا خمار ڈالتاہے‘ تیسری جیب میں زمین کی رجسٹری کاخنجررکھتاہے‘ چوتھی جیب کوجرمنی‘لندن اور انگلینڈکے ویزوں کے سنہری خوابوں کی نذرکرتاہے‘ پانچویں جیب میں ”ملازمت کے حسین مواقع“ کے تیروں کوٹھونستاہے‘چھٹی جیب کو غرباءکی امداد کے جھانسے سے آراستہ کرتاہے‘ساتویں جیب میں سماجی بہبود کے ڈھکوسلے سجاتاہے‘ آٹھویں جیب کواپنے کفریہ غلیظ لٹریچر کی نجاست کے لئے مختص کرتاہے اورپھربغل میں چھریاں اور ہونٹوں پرزہریلی مسکراہٹیں بکھیرے مسلمانوں کے ایمانوں کی فصل کاٹنے کے لئے نکل پڑتاہے۔ اللہ رے دیکھئے اسیری¿ بلبل کا اہتمام صیاد عطر مل کے چلا ہے گلاب کا وہ اپناشکار کرنے کے لئے ہروقت چوکس رہتاہے‘ پھر جہاں کوئی کمزور ایمان مسلمان نظر آتاہے‘ فوراً اُس کی جانب لپکتا ہے‘اس کی آنکھوں پرہوس رانی کی تسکین افزائی کی پٹی باندھتا ہے اوراس کے ضمیر کوزور دار دھکادے کراپنی گرفت میں لے لیتا ہے‘تب برق رفتاری سے اپنے بیگ کی جیبوں میں سے مختلف اوزار نکال کر اُس کی شہ رگ کاٹ دیتاہے‘کچھ دیر کے لئے ضمیر تڑپتاہے‘پھڑکتاہے‘حُبِ رسول eکاخون بڑی تیزی سے بہتا ہے حتّٰی کہ آخری قطرہ بھی ٹپک پڑتاہے اوریوں اُس بدنصیب کاایمان موت کی آخری ہچکی لے کرارتدادکے گہرے پانیوں میںغرق ہوجاتاہے جہاں سے پھرواپس لوٹ کرکبھی نہیں آتا۔ لٹ رہا ہے دین‘ ایمانوں کے سودے ہو رہے ہیں مگر افسوس ابھی دین محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے رکھوالے سو رہے ہیں قادیانی حوریں(چڑیلیں): تاریخ کامطالعہ اس بات پرروشنی ڈالتاہے کہ کفر نے جب بھی مسلمانوں کوزیرکرنے کی کوششیں کی ‘وہ اپنی مختلف چالوں اورمختلف حربوں کے تیروں سے سینہ¿ مسلم پرمشق کرتا رہا۔اس کے یہ حربے ان نفوس پرتواثراندازنہ ہوسکے جو مشیت ایزدی کے سانچوں میں ڈھلنے والے‘ جادہ¿ تسلیم ورضاکے پیکر تھے اورجن کے سینوں میں محبت خدا اور رسولe‘ فیاضی‘پاکیزگی اورگداز کی شمعیں جل رہی ہوتی تھیں‘لیکن اس کے برعکس وہ محض نام کے مسلمان جوان اوصاف جمیلہ کے حامل مسلمانوں کی بستی سے کہیں دور بسیراکرتے تھے‘کفرکے یہ تیران کے ایمانوں کو اکثرکفن پہننے پرمجبورکردیتے ۔ان تیروں میں سے ایک تیرجو کامیابی سے اپنے نشانے پرلگتارہااوربہت ہی کم خطاگیا وہ تیرجواں عورتوں کی جوانیوں کا تیرہے‘ماہرین جنسیات کے مطابق تمام انسانی جبلتوں میں سب سے قوی‘ اعصاب پر گہرے اوردیرپااثرات ڈالنے والی جبلت جنس ہے‘ یہی وجہ ہے کہ انسان عورت کے فتنے میں بہت جلد آکربہک جاتا ہے۔ مرادرسول حضرت عمرفاروق tکے دورِ خلافت میں آپtنے اپنی فوج کاایک لشکر حضرت عمروبن العاصt کی زیرقیادت بیت المقدس کے محاذ پرروانہ کیا۔کفارنے جب یہ محسوس کیا کہ وہ مسلمانوں کامقابلہ نہیں کرسکتے توانہوں نے ایک چال چلی کہ جس راستے سے مجاہدین نے گزرناتھا‘اس راستے میں ایک جگہ لمبی قطارمیں اپنی عورتوں کوالف ننگاکرکے کھڑاکردیا اور سوچاکہ جب مجاہدین کالشکر اس جگہ سے گزرے گا تو دوشیزگانِ روم کی شعلہ سامانیاں تیل کاکام کرجائیں گی اور یہ لشکر مچلتے بدن دیکھ کروہیں ڈھیرہوجائے گا اور جنس کے ہاتھوں مجبور ہوکر آگے نہیں بڑھ سکے گا۔(معاذاللہ) لیکن شایدکفاربھول گئے تھے کہ یہ صحابہ کرامy کا لشکر ہے جورسالت مآبeکے آغوش تربیت سے فیض یاب ہے‘جس طرح قطرہ آب آغوشِ صدف میں رہ کر نایاب بن جاتاہے‘اسی طرح آفتابِ رسالت کی آغوش میں رہ کر صحابہ کرامyکے ضمیراس قدر بقعہ¿ نور بن گئے تھے کہ ان کی روشنی سے عالم انسانیت شب دیجور کی تاریکیوں سے نکل کر نورانی صبح میں داخل ہوا۔ یہ کیسے ہوسکتاتھاکہ وہ نگاہیں جومشاہدہ¿ جمال سے روشن ہوں‘ وہ بے حیائی کی غلاظت سے لتھڑے ان گندے چیتھڑوں کی جانب اُٹھیں اورراغب ہوجائیں۔لہٰذا چشم فلک نے دیکھا کہ جب صحابہ کرامyکالشکران عورتوں کے پاس سے گزراتوان کی نگاہیں جھکی ہوئی تھیں اوران کی زبانوں پر قرآن کی یہ آیت جاری تھی۔ ترجمہ:”مسلمان مردوں سے فرمادوکہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لئے بہت ستھرا ہے ‘بے شک اللہ کوان کے کاموں کی خبرہے۔“( پ18‘104 ) لہٰذا صحابہ کرامyاورمحبت رسول کی مستی سے سرشار مسلمانوں پر توکبھی بھی عورت کاحربہ استعمال نہ ہوسکا لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیاگیاکہ کمزورایمان مسلمان اس طرح کے جال میں بہت جلد پھنس جاتاہے اوراپنی عاقبت خراب کرلیتاہے۔ لہٰذا قادیانی جوکہ بدترین کافرہیں‘ ان کامشن ہے کہ اس طرح کے نام نہاداورکمزورایمان مسلمانوں کے دلوں میں جوتھوڑی بہت ایمان کی شمع جل رہی ہوتی ہے‘ وہ عورتوں کے ذریعے گل کردی جائے اورانہیں قادیانی بنالیاجائے۔ اس مقصد کے لئے قادیانیوں نے اپنی عورتوں کی ایک تنظیم بنارکھی ہے۔ جسے لجنہ امائُ اللہ کہاجاتاہے۔اس تنظیم میں قادیانی عورتوں کو ٹریننگ کے اسپیشل عمل سے گزارا جاتاہے اورمسلمانوں کا ایمان لوٹنے کے لئے تیار کیاجاتاہے۔ یہاں لجنہ امائُ اللہ کامختصرتعارف پیش کیاجاتا ہے۔ لجنہ امائُ اللہ: قادیانیت کی تعلیم وتربیت اورلوگوں کے ایمانوں پر ڈاکہ زنی کرنے کے لئے قادیانی عورتوں کی یہ تنظیم مرزا قادیانی کے بیٹے اور قادیانیوں کے دوسرے نام نہاد خلیفہ مرزا بشیرالدین محمودنے 25دسمبر1922ءمیں قائم کی۔ قادیانیوں کی کتاب ”پہچان “کے مطابق:”احمدی مستورات میں مالی وجانی قربانیوں کی روح پیداکرنا‘دینی (قادیانیت کا)علم سیکھنے سکھانے‘دعوة الی اللہ‘خدمت خلق اور آئندہ نسل کی بہترین تعلیم وتربیت کے ذرائع سوچنا لجنہ کے اہم مقاصد ہیں۔(بحوالہ پہچان ‘صفحہ20) ہرقادیانی لڑکی جب وہ پندرہ سال کی عمرمیں جوانی کی دہلیز پرقدم رکھ دے‘اس تنظیم کی رکن بن جاتی ہے۔ ہر وہ مقام جہاں پرقادیانیت کاشجرِ خبیثہ قائم ہے‘وہاں پرلجنہ کے کام کی کارکردگی کوبہتربنانے اورانہیں اپنے مشن کے بارے میں مفیدمشورے دینے کے لئے ایک نگران اعلیٰ ہوتی ہے جسے صدرلجنہ کہاجاتاہے اورصدرلجنہ کی عاملہ کی رکن ”سیکرٹری“ کہلاتی ہے۔قادیانیوں