ذرا سمجھیے اور سمجھائیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کے ہم ذرا پابند نہیں۔ ہماری شادیاں دیکھ لیں، تقریبوں میں اوقات کی بد نظمی دیکھ لیں،کسی سے ملنے جانا ہے تو اس کو دیے گئے وقت کا ستیاناس دیکھ لیں۔ مگر تراویح پڑھتے سمے ہم سے زیادہ وقت کا کوئی پابند نہیں۔ ایک ٹائم سیٹ کردیا کہ عین اس وقت آخری رکعت کا سلام پھیر دیا جائے۔ ہر دو رکعت کے بعد پہلی نظر گھڑی پر ڈالی جاتی ہے آیا نماز تاخیر کا شکار تو نہیں۔
وجہ کیا ہے؟ ہمیں قرآن میں تدبر کی عادت نہیں۔ نہ ہم نے خود قرآن کو سمجھنے کی کوشش کی نہ اپنی اولاد کو علوم قرآن سے آشنائی بخشی۔ ہمیں اس کلام کی ذرا سمجھ آتی ہو تو مجال ہے نگاہ گھڑی پر جائے۔ پھر گھر جا کریہ نعرہ ضرور لگانا ہوتا ہے کہ آج تو حافظ صاحب نے بڑی لمبی تراویح پڑھائی، تھک ہی گئے۔ یہ سن کر بچوں کے ذہن میں بچپن سے یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ تراویح میں تیز تیز قرآن دوڑانا ہوتا ہے۔ جس دن مقررہ وقت سے سوا دو منٹ اوپر ہوجائیں، ہم حافظ صاحب سے ملتے ہیں، "حافظ جی، سپیڈ تھوڑی بڑھادیں، آج دیر ہوگئی۔ لوگوں نے گھر بھی جانا ہوتا ہے۔"
ہمیں یہ کہتے قرآن سے شرم بھی محسوس نہیں ہوتی کہ ’سپیڈ بڑھادیں‘۔ گویا خدا کا کلام نہیں پڑھا جارہا، نیڈ فار سپیڈ کھیلی جا رہی ہے۔
کوئی کہتا ہے،’’حضرت کل تو پانچ منٹ پہلے ختم ہوگئی تھی، کل بھی سوا پارہ ہی تو پڑھا تھا۔‘‘ جناب کل بات کچھ اور تھی آج کچھ اور ہوئی۔ کل مسلسل مضمون تھا، احکام تھے۔ آج مکالمات کی بڑی تعداد تھی، اب حافظ موسی علیہ السلام اور فرعون کی بات ایک ساتھ کیسے رکھ دے، قوم صالح کی تباہی کا ذکر ختم ہونے دو تو قوم عاد کا ذکر شروع کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ بس ایک ہی سانس میں دوزخیوں کو جہنم میں اور کامیاب لوگوں کو جنت میں بھیج دیا جائے۔
ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ مصلے پر کھڑا حافظ ایک ہی وقت میں قرآن پڑھ رہا ہے، رکعات کی تعداد ذہن میں رکھ رہا ہے، متشابہات سے خود کو بچا رہا ہے، جوش کے مارے آواز کو بلند نہیں ہونے دے رہا، تھکن کے مارے آواز مریل نہیں ہونے دے رہا، رکوع میں جانے کے لیے مضمون کا اختتام ڈھونڈ رہا ہے۔ وہ فقہ کا طالب علم ہے تو آیتوں سے متعلق فقہی مسائل بھی گردش میں ہیں، علم قراءت سے شدبد رکھتا ہے تو مختلف قراءات کے باہمی ربط اور معنی کی ہم آہنگی پر حیران ہے، تفسیر سے شغف رکھتا ہے نظم قرآنی کے چناؤ پر دھیان ہے، علم نحو سے آشنائی ہے تو تراکیب کا حل بھی ساتھ چلنے لگتا ہے۔ وہ سالک ہے تو آیتوں میں موجود تصوف کے مضامین پر اپنی جانچ پڑتال کررہا ہے۔
اچھا چلیے وہ کچھ نہیں ہے، کسی علم سے واقف نہیں۔ مسلمان اور حافظ تو ہے نا؟ قرآن سے محبت تو ہے نا؟ وہ رب کے کلام سے لطف لینا چاہتا ہے، ہم کہتے ہیں بھائی تو گھڑی پر نظر رکھ
قرآن کے ساتھ ظلم تو ہے ہی، یہ حافظ کے ساتھ بھی ظلم ہے۔ خدارا محبت میں وقت کو پیش نظر مت رکھیے۔ محبوب کا کلام سننے آئے ہیں تو جلدی مت مچائیے، اللہ کی خاطر دس منٹ مزید لگا دیں۔ وہ آپ کے باقی وقت میں برکتیں ڈال دے گا۔
یہ مسئلہ فوری حل ہونے کا نہیں، جو لوگ یہ تیز پڑھنے والی سوچ لے کر بوڑھے ہوگئے ان کو سمجھانا مشکل ہے، مگر آپ اگلی نسل تو تیار کر دیجیے، اپنے بچوں کو سمجھادیجیے کہ قرآن کوکیسے پڑھنا اور سننا حق ہے۔ کن باتوں میں ہمیں وقت کو مد نظر رکھنا چاہیے اور کون سے موقع ہیں جب وقت کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہیے۔
اللہ ہمیں دین کی سمجھ اور قرآن کی قدر عطا فرمائے۔ آمین
نوٹ ۔ یہ پوسٹ کاپی شئیر کر رہا ہوں ،، لیکن مجھے خود پرسنلی ایسا تجربہ ایک دو بار ہو چکا ہے ۔۔ 2006 میں جب میں قرآن پاک سنا رہا تھا ،، پہلے دو دن ایک بابا جی نے تعریفوں کے پل باندھ دیے کہ بیٹا ماشاءاللہ بہت اچھا پڑھ رہے ہو ٹھہر ٹھہر کے (ایک ایک گھنٹہ لگا تھا دونوں دن) ۔۔ جبکہ ایک انکل نے بولا کہ حافظ جی بہت آئستہ پڑھ رہے ہیں ۔۔ تیسرے دن میں نے پانچ سات منٹ کا وقت کم کیا اس انداز سے کہ میری رفتار بہت تیز بھی نہ ہو کہ کسی کو سمجھ نہ آئے اور بہت آئستہ بھی نہ ہو ۔۔ تیسرے دن اسی بابا جی نے کہا تھا کہ آج تو تیز پڑھا (جنھوں نے پہلے دو دنوں میں تعریف کی تھی) ۔۔ میں نے مختصراً یہی کہا تھا کہ چچا جی میں ہر نمازی کو خوش کرنے یہاں نہیں آیا ۔۔ البتہ اللہ کی ذات کی خوشنودی میرے لیے سب سے مقدم ہے ۔۔ باقی آپ لوگ اپنی سوچ رکھتے ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ کیسے چل رہا ہوں ۔۔ قصہ مختصر یہ کہ سب لوگوں کو چاہیے کہ اگر مسجد آ جاتے ہیں تو بس تھوڑا سا احساس ، خیال لازمی کرنا چاہیے ۔۔ مجھے یہ آرٹیکل بہت اچھا لگا اسی لیے شئیر کر رہا ہوں اور آخر میں کچھ اپنا نکتہ نظر بھی شامل کر لیا ۔۔ اللہ پاک سب کو سوچنے سمجھنے کی توفیق دیں ۔۔ آمین
حافظ فصیح الدین محمد ناصر
Bookmarks