اُس سے بچھڑے ہوئے اک دن بھی نہیں گزرا ہے
اُس سے بچھڑے ہوئے اک دن بھی نہیں گزرا ہے
خانہ جنگ ذہن میرا دل کے مقابل کیوں ہے
نیند گہری تھی تو بستر پہ یہ شکنیں کیوں کر
ترک لازم تھا تو آنسو میرے جاہل کیوں ہیں
جاگنا دیر تلک ممکن تیرا معمول مگر
اب کہ چہرے پہ یہ وحشت سی نمایاں کیوں ہے
تو جو ہنستا تھا تو ہنستا ہی چلا جاتا تھا
کیا خبر تلخئی ایام تیری گھات میں تھی
خواہشوں کی وہ پتنگ کٹ بھی چکی لٹ بھی چکی
لاکھ کہہ لے کہ اب ڈور تیرے ہاتھ میں تھی
ذہن اب ایک گنہگار قبر کی مانند
خوف اور وحشت کا ڈسا ہوا اندھا مسکن
فیصلہ تو نے کیا تھا تو اب برداشت بھی کر
ضبط کے زخم پہ اس یاد کے لمبے ناخن
جو زہر تو نے کسی کیلئے تیار کیا
اس زہر نے تیری رگ رگ میں ابھی بھرنا ہے
عین ممکن ہے گزر جائے تیراعہدفراق
قبل اس کے مگر پل پل تجھے مرنا ہے
سوچ لے پانی ابھی سر سے نہیں گزرا ہے
اُس سے بچھڑے ہوئے اک دن بھی نہیں گزرا ہے
Bookmarks