درختوں سے جُدا ہوتے ہُوئے پتّے اگر بولیں
تو جانے کتنے بھُلے بِسرے افسانوں کے در کھولیں
اکٹّھے بیٹھ کر باتیں نہ پھر شاید میسّر ہوں
چلو ان آخری لمحوں میں جی بھر کر ہنسیں بولیں
ہَوا میں بس گئی ہے پھر کسی کے جسم کی خوشبو
خیالوں کے پرندے پھر کہیں اُڑنے کو پر تولیں
جہاں تھے متفق سب اپنے بیگا نے ڈبونے کو
اُسی ساحل پہ آج اپنی اَنا کی سیپیاں رولیں
بھنّور نے جن کو لا پھینکا تھا اِس بے رحم ساحل پر
ہوائیں آج پھر اُن کشتیوں کے بادباں کھولیں
نہ کوئی روکنے والا نہ کوئی ٹوکنے والا
اکیلے آئینے کے سامنے ہنس لیں کبھی رولیں
خالدشریف
-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-
Bookmarks