ایک نئی تحقیق کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں ضعیف افراد کی شرح تناسب میں ترقی یافتہ ممالک کی نسبت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
بی بی سی کے عالمی امور کے نامہ نگار مارک ڈوائل کے مطابق فرنچ انسٹیٹیوٹ آف ڈیموگرافک سٹڈیز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غریب ممالک کے پاس اب بہت کم وقت ہے کہ وہ کامیاب پنشن سکیمیں شروع کر سکیں اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو اس کا نتیجہ ضعیف افراد کی ایک ایسی بڑی تعداد کی صورت میں نکلے گا جو غربت کا شکار ہو گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس عمل کا آغاز ابھی افریقہ کے غریب ترین ممالک میں بھی نہیں ہوا ہے لیکن جلد ہی ایسا ہونے والا ہے۔
خیال رہے کہ یہ بات پہلے ہی واضح ہے کہ امیر ممالک میں بوڑھے افراد کا تناسب بڑھ رہا ہے اور ان ممالک کی حکومتوں کو پنشن سکیموں کے وعدے پورے کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ان ممالک میں طب کے میدان میں تاریخی ترقی اورحفظانِ صحت کے اصولوں کی پاسداری لوگوں کی طویل العمری کی اہم وجوہات قرار دی جاتی ہیں۔
ویت نام اور شام میں سترہ برس بعد بوڑھے افراد آج کے مقابلے میں دوگنا ہوں گے
تاہم سماج پر تحقیق کرنے والے فرانسیسی سائنسدان جلز پسن کے مطابق اب طویل العمری کا رجحان ترقی پذیر ممالک میں بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس بات کا اندازہ دنیا میں پینسٹھ برس سے زائد العمر افراد کی تعداد کے دوگنا ہونے کی شرح سے لگایا جا سکتا ہے جو سات فیصد سے چودہ فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
فرانس میں اس شرح کے دوگنا ہونے میں سو برس لگے جبکہ دنیا کے سب سے گنجان آباد ملک چین میں جہاں یہ رجحان ابھی ابتدائی مراحل میں ہے ضعیف افراد کی آبادی صرف پچیس برس میں دوگنا ہونے کا خدشہ ہے۔ محققین کے مطابق ویت نام اور شام میں چین کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیزی سے ضعیف افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور آنے والے سترہ برس میں یہاں بوڑھے افراد آج کے مقابلے میں دوگنا ہوں گے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بوڑھوں کی تعداد میں اضافے سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے پاس آنے والے چند عشروں میں ایسے افراد کی قلت ہو گی جو ملکی ترقی میں ہاتھ بٹا سکیں۔ بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق اگر فرانسیسی محققین کی تحقیق درست ثابت ہوتی ہے تو امیر ممالک کو درپیش پنشن مسائل اس مسئلے کے سامنے غیر اہم ہو کر رہ جائیں گے جو آنے والے دنوں میں اس حوالے سے دنیا کو درپیش ہوگا۔
Bookmarks