’شوہر ہوتے تو کیا یہاں ہوتی، شوہر کے پاس گھر پر ہوتی، جس کا کوئی سہارا نہیں ہوتا اس کا اللہ سہارا ہوتا ہے۔‘ یہ الفاظ دو بیٹوں اور پانچ بیٹیوں کی ماں ریحانہ بیگم کے ہیں جو ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت قائم خواتین کے ایک مرکز میں لاوارثوں کی مانند زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔
ریحانہ بیگم کی طرح بہت سے ضیعف العمر افراد جن میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں، ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت ملک بھر میں قائم مختلف مراکز میں اپنی باقی ماندہ زندگی گزار رہے ہیں۔
شوہر کے انتقال کے بعد ریحانہ بیگم کو ان کی بیٹی نے بفرزون میں واقع ایدھی خواتین سینٹر میں دو سال قبل داخل کرایا تھا۔ ان کے بقول دو سال میں بیٹوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا کہ ان کی ماں کن حالات میں ہے۔ ان کے بقول دونوں بیٹوں کی بیویاں انہیں گھر پر رکھنے کے حق میں نہیں۔
بیٹا فوج میں میجر ہے لیکن گھر پر رکھنے کا روادار نہیں کیونکہ بہو نہیں چاہتی کہ وہ ساتھ رہیں۔ 'میں ان کے لئے بڑی اداس ہوں، دل کرتا ہے تو انہیں یاد کرکے رو لیتی ہوں، نماز میں دعا مانگتی ہوں، اللہ مجھے موت دے دے، اب اس بڑھاپے میں اور مجھ سے نہیں سہا جاتا
ارشاد سلٰمی
’ایک ماں بیس سال تک بیٹے کو پڑھاتی ہے لیکن بیٹا نہیں سیکھتا اور بیوی کی ایک رات کی پڑھائی اُسے سکھا دیتی ہے کہ ماں کو گھر سے نکالو۔‘ ریحانہ بیگم نے آبدیدہ آنکھوں کے ساتھ کپکپاتے لہجے میں کہا ’بیٹا ابھی آپ ہیں، کیا آپ جنت کو ٹھکراسکتے ہیں۔ جو ماں بچے کو نو ماہ پیٹ میں رکھتی ہے، دکھ اور مصیبت اٹھاتی ہے کیا اس ماں کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے؟ خدا نے کیا یہی بتایا ہے کہ ماں کو بے عزت کرکے گھر سے نکال دو؟ کیا آپ کو احساس ہورہا ہے کہ کیا گذر رہی ہے میرے دل پر؟‘
’بیٹا آپ بھی کسی کی اولاد ہیں۔ اگر آپ کی بیوی آپ کی ماں کو مارے گی تو آپ کیا کریں گے۔‘ ریحانہ بیگم کے اِس جملے کے آخری الفاظ جیسے ان کے گلے میں اٹک گئے ہوں اور وہ جذبات سے اس قدر لبریز ہوگئیں کہ پھر ان سے اس موضوع پر بات نہ ہوسکی۔
ارشاد سلمٰی کو لاہور کے ایدھی سینٹر میں داخل کیا گیا۔ وہاں سے انہیں ملتان اور پھر کراچی سینٹر منتقل کردیا گیا۔ ان کے بقول ان کا بیٹا فوج میں میجر ہے لیکن انہیں گھر پر رکھنے کا روادار نہیں کیونکہ بہو نہیں چاہتی کہ وہ ساتھ رہیں۔ انہوں نے روتے ہوئے کہا کہ ’میں ان کے لئے بڑی اداس ہوں۔دل کرتا ہے تو انہیں یاد کرکے رو لیتی ہوں۔ نماز میں دعا مانگتی ہوں، اللہ مجھے موت دے دے، اب اس بڑھاپے میں اور مجھ سے نہیں سہا جاتا۔‘
انیس احمد درانی پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں کے والد ہیں اور وہ کراچی کے علاقے قصبہ کالونی میں واقع بلقیس ایدھی اولڈ ہاؤس میں رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے صحافت میں ماسٹرز کیا ہے اور وہ بینک افسر کی حیثیت سے سنہ انیس سو چورانوے میں ریٹائر ہوئے اور گھر چھوڑ کر ایدھی سینٹر آگئے۔
بوڑھے افراد کو زیادہ تر ان کی اولادیں چھوڑ کر جاتی ہیں اور کچھ خود ہی آجاتے ہیں، اس کی وجوہات جائیداد کا مسئلہ، کبھی بہو سے ناراضگی کبھی بیٹا نہیں رکھنا چاہتا وغیرہ ہوتی ہیں
الیاس احمد
ان کا کہنا تھا ’پہلے میرے بچے مجھ سے بہت ڈرتے تھے۔ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں اس لیے اب وہ مجھ سے کیوں ڈریں۔ ایک بیٹے کو میں نے ہی بینک میں لگایا تھا اور اب وہ مینیجر ہوگیا ہے۔ ریٹائرمنٹ پر جو رقم ملی تھی اس سے تین منزلہ مکان بھی بنایا ہے جس میں سب رہتے ہیں۔ بچوں نے اپنی ماں کو ساتھ رکھا ہوا ہے ہوسکتا ہے سمجھتے ہوں کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے لیکن باپ کے پیروں تلے تو نہیں ہے۔‘
بلقیس ایدھی اولڈ ہاؤس کے انچارج الیاس احمد نے بتایا کہ بوڑھے افراد کو زیادہ تر ان کی اولادیں چھوڑ کر جاتی ہیں اور کچھ خود ہی آجاتے ہیں۔ اس کی وجوہات جائیداد کا مسئلہ، کبھی بہو سے ناراضگی، کبھی بیٹا نہیں رکھنا چاہتا وغیرہ ہوتی ہیں۔ ان کے بقول یہاں علاج معالجہ کی سہولیات موجود ہیں اور انہیں ضرورت پڑنے پر ہسپتال بھی بھیجا جاتا ہے جبکہ کھانے پینے اور سونے کا خیال بھی رکھا جاتا ہے۔
اولڈ ہاؤس کی تعمیر کے دوران ہی مجھے ڈیفنس اور کلفٹن سے فون آرہے ہیں کہ ان کے ماں باپ کو وہاں رکھا جائے:مفتی محمد نعیم
جامعہ بنوریہ میں بھی ایک اولڈ ہاؤس کی تعمیر کا کام شروع ہے۔ جامعہ بنوریہ کے مہتمم مفتی محمد نعیم سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں بگاڑ کی وجہ مذہبی تعلیم سے دوری ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہب کے مطابق اگر ایک شخص عبادت میں مشغول رہتا ہو لیکن اس کے ماں باپ اس سے ناخوش ہوں تو اسے جنت کی خوشبو تک نہیں آئے گی۔
’یہ مغربی تہذیب کا حصہ ہے جہاں اولڈ ہاؤس ہوتے ہیں۔‘ انہوں نے بتایا کہ وہ امریکہ کے اپنے حالیہ دورے میں یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ ان اولڈ ہاؤس میں موجود بڑی تعداد مسلمانوں کی بھی ہے۔ واپسی پر انہوں نے اُن افراد کے لئے کراچی میں اولڈ ہاؤس بنانے کا فیصلہ کیا۔
مفتی محمد نعیم کے بقول سو کمروں پر مشتمل سات منزلہ پاکستان کا پہلا باقاعدہ اولڈ ہاؤس جامعہ بنوریہ کے احاطے میں تعمیر کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’دوران ِتعمیر ہی مجھے ڈیفنس اور کلفٹن سے فون آ رہے ہیں کہ ان کے ماں باپ کو وہاں رکھا جائے۔ جنہوں نے اپنی اولاد کو فیکٹریاں لگا کردیں اب وہ اولاد اپنے ماں باپ کو ساتھ رکھنے کے لئے تیار نہیں تو یہ اولڈ ہاؤس بننے سے پہلے ہی بھر گیا ہے‘۔
معاشرے کے اس پہلو پر اپنی رائے دیتے ہوئے کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ سماجیات کی سربراہ ڈاکٹر رعنا صبا سلطان نے کہا کہ یہ وہ تبدیلی ہے اور وہ ہوا ہے جو مغرب سے آ رہی ہے اور اس تبدیلی کو کوئی نہیں روک سکتا۔
ان کے بقول پہلے سماجی اقدار اور روایات کی پاسداری تھی لیکن وقت کے ساتھ طور طریقے بدل گئے، مہنگائی بھی بڑھ گئی اور گھر میں دونوں میاں بیوی کو گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے تو وہ چاہتے ہیں کہ وہ جلد ہی اپنے بچوں کو ڈے کیئر سینٹر میں داخل کرا دیں۔
پہلے سماجی اقدار اور روایات کی پاسداری تھی لیکن وقت کے ساتھ طور طریقے بدل گئے ہیں : رعنا صبا
ان کا کہنا ہے کہ اگر آج آپ اپنے بچوں کو ڈے کیئر سینٹر میں داخل کرائیں گے تو کل وہ آپ کو اولڈ ہاؤس میں داخل کرائیں گے، یہ ہی مکافات عمل ہے۔
ان کے بقول آج بھی ایسے افراد ہیں جو اپنے بوڑھے ماں باپ کی عزت کرتے ہیں۔ ان کے بقول یہ آپ کے خاندان کے رکھ رکھاؤ پر منحصر ہے کہ آپ نے اپنے خاندان کو کیسے بندھن سے باندھ رکھا ہے۔اگر آج آپ اپنے بچوں کو اپنے سے باندھ کے رکھیں گے تو کل وہ آپ کو بھی اپنے سے باندھ کے رکھیں گے لیکن اگر ہم نے ان کو اپنے سے دور رکھا ہے تو وہ بھی ہم کو اپنے سے جدا رکھیں گے۔
Bookmarks