دیکھا پلٹ کے اس نے کہ حسرت اسے بھی تھی
ہم جس پہ مٹ گئے تھے محبت اسے بھی تھی
چپ ہو گیا تھا دیکھ کر وہ بھی ادھر ادھر
دنیا سے میری طرح شکایت اسے بھی تھی
یہ سوچ کر اندھیرے گلے سے لگا لیے
راتوں کو جاگنے کی جو عادت اسے بھی تھی
وہ روہ دیا تھا مجھ کو پریشان دیکھ کر
اس دن کھلا کہ میری ضرورت اسے بھی تھی
ان پتھرون کے ساتھ نبھانی پڑی اسے
جن سے فقط مجھے نہیں نفرت اسے بھی تھی
Bookmarks