ہر دل سے نکل جانے کا امکان کھلا رکھ
یا دھوپ میں مت موم کا سامان کھلا رکھ

اس گاں میں ہر شام اتر آتے ہیں عفریت
اک ورد کا پیڑوں پہ نگہبان کھلا رکھ

پلکوں پہ دئیے جلتے رہیں اشکوں کے لیکن
ہاتھوں میں مرے میر کا دیوان کھلا رکھ