وہ گیا تو ساتھ ہی لے گیا سبھی رنگ اتار کے شہر کا
کوئی شخص تھا میرے شہر میں، کسی دور پار کے شہر کا

چلو کوئی دل تو اداس تھا چلو کوہی آنکھ تو نم رہی
چلو کوئی در تو کھلا، شب انتظار کے شہر کا

کئی خوشبوئیں درِ دوست تک مرے ساتھ شمع بدست تھیں
مجھے پوچھنا نہ پڑا پتا، مرے گل عزار کے شہر کا

یہ جو میں نے تازہ غزل کہی سو ہے نزر اہل فراق کے
کہ نہ مل سکا کوئی نامہ بر مجھے میرے یار کے شہر کا

سو متاع جاں کو لیے ہوئے پلٹ آئے تیرے گرفتہ دل
کسے بیچتے کہ ملا نہیں کوئی اعتبار کے شہر کا

مری طرزِ نغمہ سرائی سے کوئی باغباں بھی تو خوش نہ تھا
یہ مرا مزاج ہے کیا کروں کہ میں ہوں بہار کے شہر کا

کسی اور دیس کی اور کو سنا ہے فراز چلا گیا
سبھی دکھ سمیٹ کے شہر کے، سبھی قرض اتار کے شہر