بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی پوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے !

دن کو اِک نُور برستا ہے میری تُربت پر
رات کو چادرِ ماہتاب تنی ہوتی ہے !

لُٹ گیا وہ تیرے کوچے میں رکھا جس نے قدم
اِس طرح کی بھی کہیں راہزنی ہوتی ہے ! !

ہجر میں زہر ھے ساغر کا لگانا مُنہ سے ! !
مے کی جو بوند ہے ، ہیروں کی کنی ہوتی ہے

مے کشوں کو نہ کبھی فکرِ کم و بیش ہوئی
ایسے لوگوں کی طبییت بھی غنی ہوتی ہے

ہوک اُٹھتی ہے اگر ضبطِ فغاں کرتا ہوں ! !
سانس رُکتی ہے تو برچھی کی انّی ہوتی یے

پی لو دو گھونٹ کہ ساقی کی رہے بات "حفیظ"
صاف انکار میں خاطر شکنی ہوتی ہے ! !
*~*~*~*~*~*~*